تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ پر جادوبیویوں کے سلسلے میں ہوا تھا کہ آپ ان کے پاس نہ جا سکیں۔ آپ سمجھتے تھے کہ میں ان سے تعلق قائم کر سکتا ہوں لیکن تعلق قائم نہیں کر سکتے تھے چنانچہ ایک روایت میں ہے اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ عورتوں سے صحبت کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6063) الغرض اس جادو کا اثر آپ کے خیالات پر ہوا لیکن وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہو سکا۔ اتنا سا جو اثر ہو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحت تھی۔ ایک روایت میں ہے آپ نے اس جادو کو کنویں سے نکلوایا لیکن رد عمل کے طور پر اس یہودی سے کوئی باز پرس نہ کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان جذبات میں آکر اسے قتل کردیں جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ نے اسے نکالا نہیں تھا۔ ان میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ اس وقت آپ نے نہیں نکلوایا تھا بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی تفصیل سے آپ مطلع ہوئے۔ اس کے متعلق مکمل بحث کتاب الطب میں ہو گی۔ 2۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جادو کی تکمیل میں شیاطین کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ ان کی بری صفات میں سے ہے کہ جادو کے ذریعے سے خاوند اور بیوی کے درمیان اختلاف ڈال دیں۔ نتیجے کے طور پر ان میں تفریق ہو جائے۔