تشریح:
1۔ شرک، ظلم کا فرد اعلیٰ ہے اور نفاق، کفرکا فرد اعلیٰ ہے اس میں کفر باللہ کے ساتھ مسلمانوں کو دھوکا دینا بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام کفار کے مقابلے میں اس کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ ’’بلا شبہ منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔‘‘ (النساء:4/145) اسی مناسبت کی بنا پر کفر سے متعلقہ ابواب کے اختتام پر اسے ذکر کیا گیا ہے۔ پھر نفاق کی دوقسمیں ہیں۔ ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا ہوتا ہے جو کفر کی بدترین قسم ہے جس کی نشاندہی صرف وحی سے ممکن ہے۔ دوسرا عملی نفاق ہے جسے سیرت و کردار کا نفاق بھی کہتے ہیں واضح رہے کہ نفاق میں بھی کفر اور ظلم کی طرح مراتب ہیں بعض ادنیٰ ہیں اور بعض اعلیٰ، اعلیٰ مرتبہ تو نفاق اعتقادی کا ہے جس کا کفر ہونا محتاج بیان نہیں باقی مراتب عملی مراتب نفاق کے ہیں اور ان میں درجات کا تفاوت ہے جب ایمان کے اضداد میں یہ مراتب قائم ہیں تو ایمان میں بھی ضرور ہونے چاہئیں لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد واضح ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے اور معاصی ایمان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور نقصان کیا ہو سکتا ہے کہ احادیث میں بیان کردہ افعال قبیحہ کے ارتکاب سے انسان زمرہ منافقین میں آجاتا ہے۔
2۔ نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں۔ یہ لفظ دراصل نافقاء سے لیا گیا ہے جو چوہے کی طرح ایک جانور کے بل کے پوشیدہ دروازے کا نام ہے جو بظاہر ہموار زمین کی طرح نظر آتاہے منافق بھی بظاہرمسلمان نظرآتا ہے مگراندورنی طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا محض دھوکا دینے کے لیے یہ روپ اختیار کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ﴾ ’’اور جب وہ تمھارےپاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لیے آئے تھےاور اس کفر کے ساتھ ہی واپس ہو گئے۔ اور جو کچھ یہ چھپا رہے ہیں، اسے اللہ خوب جانتا ہے۔‘‘ (المائدة: 61/5 وشرح الکرماني: 147/1)
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف نہیں ہے کہ ان خصائل کے اختیار کرنے سے ایک مومن انسان منافق بن جاتا ہے بلکہ ان کا مرتکب اس انسان کے اعتبار سے منافق ہے جس کے ساتھ نقض عہد کیا ہے۔ جس سے وعدہ خلافی کی ہے۔ جس کی امانت میں خیانت کی ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اصطلاح نفاق کو بیان نہیں فرما رہے بلکہ وہ ایمان میں کمی بیشی کے اثبات کے لیے کفروظلم میں کمی بیشی کا اثبات کر چکے ہیں اور اب نفاق میں اس کمی بیشی کا اثبات چاہتے ہیں تاکہ نفاق کے درجات کے اثبات سے ایمان میں بھی درجات کا اثبات کیا جائے نیز ان چیزوں کو نفاق کی علت نہیں کہا گیا کہ جس کی موجودگی میں معلول کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے بلکہ یہاں انھیں صرف علامت قراردیا گیا ہے اور ضروری نہیں کہ جہاں علامت موجود ہو وہاں اصل شئے بھی پائی جائے جیسے نبض کی تیزی بخار کی علامت ہے مگر کبھی قوت نفس کی بنا پر بھی نبض تیز ہو جاتی ہے۔
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں نفاق کی تین علامتیں بیان ہوئی ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق کی چار علامتیں ہیں ان چار میں دو علامتیں تو پہلی روایت کی ہیں اور دو علامتیں مزید ہیں۔ اس طرح کل پانچ علامتیں ہو جاتی ہیں۔1۔ دروغ گوئی 2۔ خیانت 3۔ وعدہ خلافی 4۔ عہد شکنی 5۔فجور۔ اگر غور کیا جائےتو ان پانچوں کو تین ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ وعدہ خلافی اور عہد شکنی میں مصداق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح فجوربھی دروغ گوئی کے تحت آسکتا ہے۔ ایسی صورت میں تین ہی خصلتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کےاسلوب بیان سے معلوم ہو رہا ہے کہ علامات نفاق کا انحصار تین ہی میں ہے۔ کذب بیانی سے فساد قول، خیانت سے فساد عمل اور وعدہ خلافی سے فساد نیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ فساد نیت پر استدلال اس طرح ہے کہ وعدہ خلافی وہی معیوب ہے جس میں وعدہ کرتے وقت یہ نیت کرلی گئی ہو کہ اسے پورا نہیں کرنا ہے اور اگر پورا کرنے کی نیت ہو اور کوشش کے باوجود اس کا ایفا نہ ہو سکے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ( فتح الباري: 122/1)
5۔ روایت کے آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اعمش سے بیان کرنے میں شعبہ نے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی متابعت کی ہے۔ اس متابعت کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قبیصہ عن سفیان کے طریق کو امام یحییٰ بن معین نے ضعیف قراردیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ جب اس کی متابعت موجود ہے تو اس طریق کو ضعیف قراردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے قبیصہ کے طریق کے علاوہ وکیع (حدَّثنا) سفیان کا طریق بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 210(58)) پھر اعمش سے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ شعبہ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے جسے خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المظالم میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے حدیث نمبر2458)۔ لہٰذا اس روایت کے قابل حجت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ( فتح الباري: 123/1)