تشریح:
1۔ علامہ سندھی ؒ نے عنوان کا مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ اس مقام پر طہر سے مرادخون حیض کا انقطاع ہے، مطلق خون کا بند ہونا مراد نہیں، کیونکہ کلام تو اس عورت سے متعلق ہے جو خون استحاضہ کی حالت سے دوچار ہو اور اس کا خون بند نہ ہورہاہو۔ (حاشیة السندی:205/1) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: جب حیض کے خون سے استحاضہ کو تمیز کرسکے، توگواستحاضے کا خون جاری ہے، اسے طہر کہا گیا ہے۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ مطلق خون بند ہونے کو طہر سے تعبیر کیا گیا ہو، لیکن سیاق کے اعتبارسے پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔ (فتح الباري:555/1) مقصد یہ ہے کہ عورت جس وقت دیکھے کہ طہر شروع ہوگیا ہے، گواستحاضے کا خون آتا رہے تو فوراً غسل کرکے نماز شروع کردے۔ لیکن علامہ عینی ؒ نے اس سے واقعی طور پر انقطاع دم مرادلیا ہے۔ دم استحاضہ کوطہر قرار دینا صرف مجازی طور پر ممکن ہے جس کی یہاں کوئی ضرورت نہیں، اس لیے یہاں طہر کی تفسیر مطلق خون بند ہونے سے کی جائے گی۔ امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ خون بند ہوگیا ہے تو فوراً غسل کرکے نماز پڑھے، مزید وقت گزرنے کا انتظار نہ کرے۔ (عمد ة القاري:178/3) 2۔ حضرت ابن عباس ؓ کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (153/1) اوردارمی (805) میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ابن سیرین ؒ نے حضرت ابن عباس ؒ سے مستحاضہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب بحرانی خون، یعنی حیض دیکھے تو نماز نہ پڑھے اور جب طہر دیکھے خواہ ایک لحظہ ہو، تو غسل کرکے نماز ادا کرے۔ خاوند کی مقاربت سے متعلق اثرابن عباس کو مصنف عبدالرزاق (310/1) میں حضرت عکرمہ کی سند سے بیان کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: اس سے مقاربت (ہم بستری) کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ابوداؤد میں ہے کہ ام حبیبہ ؓ کا خاوند استحاضے کی حالت میں اس سے مقاربت کرلیتا تھا۔ یہ حدیث صحیح ہے، بشرطیکہ حضرت عکرمہ کا حضرت ام حبیبہ سے سماع ثابت ہو۔ ( فتح الباري:556/1) 3۔ ابراہیم نخعی ؒ ، حکم اورامام زہری ؒ وغیرہ کا خیال ہے کہ مستحاضہ عورت سے جماع جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ ان کی تردید فرمارہے ہیں کہ جب نماز پڑھنا جائز ہے تو خاوند کو اس سے صحبت کرنابطریق اولی جائز ہوگا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس کے لیے حدیث فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ کو مختصراً بیان کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ مستحاضہ کو نماز پڑھنی چاہیے۔ حدیث مذکور پہلے گزر چکی ہے، تشریح کے لیے اس کی طرف مراجعت کی جائے۔