تشریح:
1۔ جو کتے مویشیوں یا کھیتی کی حفاظت یا شکار کے لیے رکھے گئے ہوں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کے علاوہ جو کتے شوقیہ طور پر رکھے جائیں۔ ان کے لیے مذکورہ وعید ہے۔ 2۔ بعض روایات میں ہے کہ شوقیہ کتے رکھنے والے کے نیک اعمال سے روزانہ دوقیراط کم ہوتے رہیں گے۔ (صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث:5480) ان دونوں روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ جب لوگ اس سے باز نہ آئے تو بطور زجر و توبیخ دوقیراط فرمایا کتے کی اذیت کے پیش نظر فرمایا کہ جس کتے سے اذیت زیادہ ہواسے پالنے سے دوقیراط ثواب کم اور جس سے اذیت کم ہو، اس کے پالنے سے ایک قیراط ثواب کم ہوتارہتاہے یا یہ اختلاف جگہ کے اعتبار سے ہوگا کہ مدینہ طیبہ میں ایسے کتے پالنے سے دوقیراط اور دیگر مقامات پرایک قیراط اوردیگر مقامات پر ایک قیراط ثواب کم ہوتا رہے گا۔ قیراط کی مقدار اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ (عمدة القاري:671/10) 3۔ کتے کبھی نہ کبھی کسی کا ضرور نقصان کردیتے ہیں، اس نقصان کے عوض اس کے پالنے والے پرذمہ داری ہوگی۔ حفاظت یا شکار کے لیے جو کسی رکھے جائیں، ان پر مالک کا ضرور کنٹرول ہوتا ہے، اس لیے انھیں مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ یہ کتاب بدء الخلق کا آخری باب ہے، اس لیے ان احادیث کا ذکر ہوا جس میں کسی نہ کسی حوالے سے حیوانات کاتذکرہ ہے۔