تشریح:
1۔ امام بخاری ؒنے اس حدیث کو تخلیق اولاد آدم کی بنیاد ثابت کرنے کے لیے بیان کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓسے مروی ایک حدیث میں ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو بچے کی مشابہت ماموؤں سے ہوتی ہے اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو بچے کی شکل و صورت چچاؤں سے ملتی جلتی ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الحیض، حدیث:715۔(313) ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ آدمی کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے جبکہ عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے۔ ان میں سے جو بھی غالب آجائے اس سے بچے کی مشابہت ہو جاتی ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:710۔(311) 2۔ ان روایات میں "علو"سے مراد سبقت ہے یعنی شکل وصورت کی بنیاد رحم مادر میں پانی کا پہلے پہنچنا ہے البتہ حضرت ثوبان ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر آدمی کی منی عورت کی منی پر غالب آجائے تو اللہ کے حکم سے نرپیدا ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفے پر غلبہ پالے تو اللہ کے حکم سے لڑکی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:716۔(315) ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ پانی کی سبقت سے شکل و صورت اور اس کے غلبے سے نر مادہ ہوتا ہے اس طرح چھ صورتیں ہمارےسامنے آتی ہیں۔ ©رحم مادر میں آدمی کا پانی پہلے نیچے پہنچے اور وہی غالب بھی آجائے تو لڑکا جو اپنے دوھیال کے مشابہ ہوگا۔ ©رحم مادر میں عورت کا پانی سبقت کرے اور وہی غالب بھی آئے تو لڑکی جو اپنے ننھیال سے ملتی جلتی ہوگی۔ ©رحم مادر میں آدمی کا پانی پہلے پہنچے لیکن غلبہ عورت کے پانی کو ہو تو لڑکی جو دوھیال کے مشابہ ہوگی۔ ©رحم مادر میں عورت کا پانی سبقت کرے لیکن غالب مرد کا پانی آئے تو لڑکا جو ننھیال سے ملتا جلتا ہوگا۔ ©رحم مادرمیں آدمی کا پانی پہلے جائےلیکن کسی کو غلبہ نہ ملے تو شکل وصورت دوھیال کی لیکن اس کا نر و مادہ واضح نہیں ہوگا۔ رحم مادر میں عورت کا پانی پہلے پہنچ جائے لیکن غلبہ کسی کو نہ ہوتو شکل و صورت ننھیال کی لیکن اس کا مذکر و مؤنث ہونا واضح نہ ہوگا۔ (فتح الباري:342/7) شاید آخری دو سورتیں تیسری مخلوق (یجڑے) پیدا ہونے کا باعث ہوں یا مستورالاعضاء بچے پیدا ہونے کا سبب ہوں جن کے آپریشن کے ذریعے سے اعضائے تناسلی ظاہر کیے جاتے ہیں۔ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔