قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً} [البقرة: 30])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ} [الطارق: 4]: «إِلَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ»، {فِي كَبَدٍ} [البلد: 4]: فِي شِدَّةِ خَلْقٍ. (وَرِيَاشًا): المَالُ " وَقَالَ غَيْرُهُ: الرِّيَاشُ وَالرِّيشُ وَاحِدٌ، وَهُوَ مَا ظَهَرَ مِنَ اللِّبَاسِ، {مَا تُمْنُونَ} [الواقعة: 58]: النُّطْفَةُ فِي أَرْحَامِ النِّسَاءِ " وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {إِنَّهُ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِرٌ} [الطارق: 8]: «النُّطْفَةُ فِي الإِحْلِيلِ، كُلُّ شَيْءٍ خَلَقَهُ فَهُوَ شَفْعٌ، السَّمَاءُ شَفْعٌ، وَالوَتْرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ»، {فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ} [التين: 4]: «فِي أَحْسَنِ خَلْقٍ»، {أَسْفَلَ سَافِلِينَ} [التين: 5]: «إِلَّا مَنْ آمَنَ»، {خُسْرٍ} [النساء: 119]: «ضَلاَلٍ، ثُمَّ اسْتَثْنَى إِلَّا مَنْ آمَنَ». {لاَزِبٍ} [الصافات: 11]: «لاَزِمٌ»، {نُنْشِئَكُمْ} [الواقعة: 61]: «فِي أَيِّ خَلْقٍ نَشَاءُ»، {نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ} [البقرة: 30]: «نُعَظِّمُكَ» وَقَالَ أَبُو العَالِيَةِ {فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ} [البقرة: 37]: فَهُوَ قَوْلُهُ: {رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا} [الأعراف: 23]. {فَأَزَلَّهُمَا} [البقرة: 36]: «فَاسْتَزَلَّهُمَا» وَ {يَتَسَنَّهْ} [البقرة: 259]: «يَتَغَيَّرْ»، {آسِنٌ} [محمد: 15]: «مُتَغَيِّرٌ، وَالمَسْنُونُ المُتَغَيِّرُ»، {حَمَإٍ} [الحجر: 26]: «جَمْعُ حَمْأَةٍ وَهُوَ الطِّينُ المُتَغَيِّرُ»، {يَخْصِفَانِ} [الأعراف: 22]: «أَخْذُ الخِصَافِ مِنْ وَرَقِ الجَنَّةِ، يُؤَلِّفَانِ الوَرَقَ وَيَخْصِفَانِ بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ»، {سَوْآتُهُمَا} [طه: 121]: «كِنَايَةٌ عَنْ فَرْجَيْهِمَا»، {وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ} [البقرة: 36]: «هَا هُنَا إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ، الحِينُ عِنْدَ العَرَبِ مِنْ سَاعَةٍ إِلَى مَا لاَ يُحْصَى عَدَدُهُ» {قَبِيلُهُ} [الأعراف: 27]: «جِيلُهُ الَّذِي هُوَ مِنْهُمْ»

3329. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا الفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَلَغَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلاَمٍ مَقْدَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلاَثٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ قَالَ: مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ؟ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ الوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ؟ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ إِلَى أَخْوَالِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «خَبَّرَنِي بِهِنَّ آنِفًا جِبْرِيلُ» قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ ذَاكَ عَدُوُّ اليَهُودِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ المَشْرِقِ إِلَى المَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ، وَأَمَّا الشَّبَهُ فِي الوَلَدِ: فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَشِيَ المَرْأَةَ فَسَبَقَهَا مَاؤُهُ كَانَ الشَّبَهُ لَهُ، وَإِذَا سَبَقَ مَاؤُهَا كَانَ الشَّبَهُ لَهَا قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اليَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ، إِنْ عَلِمُوا بِإِسْلاَمِي قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ بَهَتُونِي عِنْدَكَ، فَجَاءَتِ اليَهُودُ وَدَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ البَيْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَيُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ» قَالُوا أَعْلَمُنَا، وَابْنُ أَعْلَمِنَا، وَأَخْيَرُنَا، وَابْنُ أَخْيَرِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ» قَالُوا: أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: شَرُّنَا، وَابْنُ شَرِّنَا، وَوَقَعُوا فِيهِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

(خلیفہ کے یہ بھی ایک معنی ہیں کہ ان میں سلسلہ وار ایک کے بعد دوسرے ان کے قائم مقام ہوتے رہیں گے)‏‏‏‏ ابن عباس ؓنے کہا سورۃ الطارق میں جو «لما عليها حافظ‏» کے الفاظ ہیں، یہاں «لما» «إلا» کے معنے میں ہے۔ یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے، (سورۃ البلد میں جو) «في كبد‏» کا لفظ آیا ہے «كبد‏» کے معنی سختی کے ہیں۔ اور (سورۃ الاعراف میں) جو «ريشا» کا لفظ آیا ہے «رياش» اس کی جمع ہے یعنی مال۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے دوسروں نے کہا، «رياش» اور «ريش» کا ایک ہی معنی ہے۔ یعنی ظاہری لباس اور (سورۃ واقعہ میں) جو «تمنون‏» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی «نطفة» کے ہیں جو تم عورتوں کے رحم میں (جماع کر کے) ڈالتے ہو۔ (اور سورۃ الطارق میں ہے) «إنه على رجعه لقادر‏» مجاہد نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ منی کو پھر ذکر میں لوٹا سکتا ہے (اس کو فریابی نے وصل کیا، اکثر لوگوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اللہ آدمی کے لوٹانے یعنی قیامت میں پیدا کرنے پر قادر ہے) (اور سورۃ السجدہ میں) «كل شىء خلقه» کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ نے جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ آسمان زمین کا جوڑ ہے (جن آدمی کا جوڑ ہے، سورج چاند کا جوڑ ہے۔) اور طاق اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سورۃ التین میں ہے «في أحسن تقويم‏» یعنی اچھی صورت اچھی خلقت میں ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ «أسفل سافلين‏ إلا من آمن» یعنی پھر آدمی کو ہم نے پست سے پست تر کر دیا (دوزخی بنا دیا) مگر جو ایمان لایا۔ (سورۃ العصر میں) «في خسر‏» کا معنی گمراہی میں پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا۔ (فرمایا «الا الذين امنوا») سورۃ والصافات میں «لازب‏» کے معنی لازم (یعنی چمٹتی ہوئی لیس دار) سورۃ الواقعہ میں الفاظ «ننشئكم‏‏ في ما لا تعلمون» ‏‏‏‏ یعنی جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کو بنا دیں۔ (سورۃ البقرہ میں) «نسبح بحمدك‏» یعنی فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا اسی سورۃ میں جو ہے «فتلقى آدم من ربه كلمات‏» » ‏‏‏‏ وہ کلمات یہ ہیں «ربنا ظلمنا أنفسنا‏» اسی سورۃ میں «فأزلهما‏» کا معنی یعنی ان کو ڈگمگا دیا پھسلا دیا۔ (اسی سورۃ میں ہے) «لم يتسنه‏» یعنی بگڑا تک نہیں۔ اسی سے (سورۃ محمد میں) «آسن» یعنی بگڑا ہوا (بدبودار پانی) اسی سے سورۃ الحجر میں لفظ «مسنون» ہے یعنی بدلی ہوئی بدبودار۔ (اسی سورۃ میں) «حمإ‏» کا لفظ ہے جو «حمأة» کی جمع ہے یعنی بدبودار کیچڑ (سورۃ الاعراف میں) لفظ «يخصفان‏» کے معنی یعنی دونوں آدم اور حواء نے بہشت کے پتوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ ایک پر ایک رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ لفظ «سوآتهما‏» سے مراد شرمگاہ ہیں۔ لفظ «ومتاع إلى حين‏» میں «حين‏» سے قیامت مراد ہے، عرب لوگ ایک گھڑی سے لے کر بے انتہا مدت تک کو «حين‏» کہتے ہیں۔ «قبيله‏» سے مراد شیطان کا گروہ جس میں وہ خود ہے۔حضرت مجتہد مطلق امام بخاری اپنی عادت کے مطابق قرآن شریف کی مختلف صورتوں کے مختلف الفاظ کے معنی یہاں واضح فرمائے ہیں۔ان الفاظ کا ذکر ایسے ایسے مقامات پر آیا ہے جہاں کسی نہ کسی طرح سے اس کتاب الانبیاء سے متعلق کسی نہ کسی طرح مضامین بیان ہوئے ہیں یہاں ان اکثر سورتوں کوبریکٹ میں ہم نے بتلا دیا ہے وہاں وہ الفاظ تلاش کر کے آیات سیاق وسباق سے پورے مطالب کو معلوم کیا جاسکتا ہے ان جملہ آیات اور ان کے مذکورہ بالا الفاظ کی پوری تفصیل طوالت کے خوف سے یہاں ترک کر دی گئی ہے۔اللہ پاک خیریت سے اس پارے کو بھی پورا کرائے کہ وہ ہی مالک مختار ہے المرقوم بتاریخ15شوال 1391ھ ترچناپلی برمکان حاجی محمد ابراہیم صاحب اداماللہ اقبالھم آمین۔

3329.

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں آپ سے تین سوال کرنا چاہتا ہوں، انھیں نبی کریم ﷺ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ وہ کونسا کھانا ہے جو اہل جنت کو سب سے پہلے دیا جائے گا؟ کس وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کس لیے اپنے ماموؤں کے مشابہ ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے ابھی ابھی حضرت جبرئیل ؑ نے ان کے متعلق بتایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: وہ فرشتہ تو قوم یہود کا دشمن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کی پہلی نشانی آگ ہے جولوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی۔ سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کے ساتھ کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہوگا۔ اور بچے میں مشابہت اس طرح ہوتی ہے کہ مرد، جب بیوی سے جماع کرتا ہے تو اگر اس کا نطفہ عورت کے نطفے سے پہلے رحم میں چلا جائے تو بچہ مرد کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ سبقت لے جائے تو بچہ عورت کے مشابہ ہوتا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے(تسلی کرنے کے بعد) کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ پھر انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! یہودی بہت بہتان تراز ہیں۔ اگر نھیں میرے مسلمان ہونے کا علم ہوگیا تو آپ کے دریافت کرنے سے پہلے ہی آپ کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمت لگائیں گے۔ اس دوران میں یہودی آگئے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کمرے میں روپوش ہوکر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: ’’بتاؤ تم میں عبداللہ بن سلام کیسا شخص ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحبزادے ہیں، نیز وہ ہم سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ بہتر کے بیٹے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے بتاؤ اگر عبداللہ بن سلام مسلمان ہوجائے (تو تمہارا کیا خیال ہوگا؟)‘‘ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اسے اسلام سے محفوظ رکھے۔ اتنے میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے سامنے آکر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو ا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اب(یہودی بیک زبان ہوکر ان کے متعلق) کہنے لگے: یہ ہم میں سب سے بدتر اور سب سے بدتر کا بیٹا ہے اور وہیں انھیں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔