تشریح:
اس حدیث کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ گوشت میں خراب ہونے کی خاصیت بنی اسرائیل کے بعد پیدا ہوئی۔ بلکہ خاصیت تو پہلے بھی تھی لیکن اس کا ظہور بنی اسرائیل کی اس حرکت سے ہوا کہ انھوں نے من وسلوٰى کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی تھی۔ انھیں منع کیا گیا لیکن وہ باز نہ آئے تو انھیں سزا دی گئی کہ ان کا کھانا اور گوشت گل سڑ جاتا تھا۔ ان سے پہلے کسی نے بھی گوشت کی ذخیرہ اندوزی نہیں کی تھی اور نہ گوشت کی اس خصوصیت کا اظہار ہوا۔ اسی طرح حضرت حواء ؑ نے شیطان کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہو کر حضرت آدم ؑ کو ممنوعہ درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کیا۔ چونکہ وہ بنات آدم کی والدہ ہیں تو ولادت کی وجہ سے بیٹیاں اس کے مشابہ ہو گئیں۔ وہ بھی بات کو بنا سنوار کر اپنے خاوند کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ کوئی عورت ایسی نہیں جو اپنے قول و فعل سے خاوند کو بات ماننے پر آمادہ نہ کر لیتی ہو۔ یہی اس کی خیانت ہے۔ اس خیانت سے مراد بے حیائی اور بے شرمی نہیں صرف ایسی بات کا مشورہ دینا مراد ہے جو خاوند کے لیے نقصان دہ ہو۔ یہ عورت کی طبیعت اور عادت میں داخل ہونے کی وجہ سے حوا کی تمام بیٹیوں میں موجود ہے۔ (فتح الباري:444/6)