تشریح:
1۔ دوسری حدیث میں عمل کا ذکر نہیں کیونکہ سعادت و شقاوت (نیک بختی اور بدبختی)کے ضمن میں عمل بھی آجاتا ہے رحم پر دو فرشتے مقرر ہیں۔ ایک مستقل طور پر ڈیوٹی دیتا ہے اور ایک ہنگامی طور پر تقدیر لکھنے کے لیے آتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ توازل سے ہو چکا ہوتا ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ اس فیصلے کو فرشتے کے لیے ظاہر کرتا ہے اور اس کے لکھنے کا حکم دیتاہے۔ 2۔ اس حدیث کے مطابق حمل ٹھہرنے کے چوتھے مہینے میں روح ڈال دی جاتی ہے جبکہ طب جدید کا کہنا ہے کہ بچے میں حرکت وغیرہ اس سے پہلے پیدا ہو جاتی اس کا جواب یہ ہےکہ چار ماہ سے پہلے حرکت نمودار بڑھوتری کی حرکت ہوتی ہے جو نباتات میں بھی پائی جاتی ہے جہاں تک روح کا تعلق ہے جو امر ربی ہے جس سے انسان میں ادراک اور شعور پیداہوتا ہے۔ جس کی بنیاد پر جزا و سزا کا حق دار ہوگا اور مرنےکے بعد وہ اس سے الگ ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن ہمیشہ کے لیے اسے جسم کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ وہ چوتھے مہینے ہی ڈالی جاتی ہے۔ 3۔ ان احادیث میں انسان کی تخلیق کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں ذکر کیا ہے۔