تشریح:
1۔ قرآن کریم میں دو آیات تیمم سے متعلق ہیں: ایک سورہ نساء آیت 43 اور دوسری سورہ مائدہ آیت نمبر6۔ اس روایت میں آیت تیمم سے کون سی آیت مراد ہے؟ابن عربی فرماتے ہیں کہ یہ عقدہ بہت پیچیدہ ہے جس کا کوئی حل ہمیں نظر نہیں آتا، کیونکہ اگر سورہ نساء والی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی تو پانی نہ ملنے کی صورت میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر سورہ نساء والی آیت اس سے پہلے نازل نہیں ہوئی تھی تو اس حکم کو سورہ نساء میں دوبارہ نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جبکہ دونوں کے الفاظ اور سیاق بھی ایک جیسا ہے۔ علامہ ابن بطال نے اس متعلق تردو کا اظہار کیا ہے، جبکہ علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سورہ نساء کی آیت ہے، کیونکہ سورہ مائدہ کی آیت کو آیت وضو کہتے ہیں اور سورہ نساء میں چونکہ وضو کا ذکر نہیں ہے، اس لیے اس آیت کو آیت تیمم کہا جاتا ہے، لیکن جو بات ان تمام حضرات پر مخفی رہی وہ امام بخاری ؒ كے ليے كسی تردد کے بغیر ظاہر ہو گئی۔ انھوں نے فیصلہ فر مادیا کہ اس موقع پر سورہ مائدہ والی آیت نازل ہوئی ہے،کیوں کہ انھوں نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان میں منہ کا لفظ ہے،یہ لفظ سورہ نساء میں نہیں بلکہ سورہ مائدہ میں ہے۔ پھر امام بخاری سورہ مائدہ کی تفسیر میں جو روایت لائے ہیں۔ اس میں اس آیت تیمم کے آغاز کی صراحت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد سورہ مائدہ ہی کی آیت ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:1608) تنبیہ امام بخاری ؒ نے سورہ نساء میں متعلقہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بھی روایت عائشہ ؓ کو بیان کیا ہے، لیکن اس کا مطلب شان نزول کی وضاحت کرنا نہیں اور نہ یہ اس بات ہی کی دلیل ہے کہ خود امام بخاری بھی اس معاملے میں متردو ہیں۔ جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے۔ 2۔ مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کے ہار کی گمشدگی دو مرتبہ ہوئی۔ اب یہ بات کہ ایک سفر میں دو بار ہار گم ہوا، بعید از قیاس ہے۔ اس لیے یہ ماننا ہوگا کہ دو مختلف سفروں میں دو مرتبہ ہار گم ہوا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے ایک مرتبہ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ ؓ کا ہار گم ہوا جو انھوں نے اپنی بہن حضرت اسماء ؓ سے عاریتاً لیا تھا۔ اس مرتبہ انھوں نے خود ہی تلاش کیا اور اس وقت دستیاب ہوا جب لشکر کوچ کر چکا تھا ۔ دوسری مرتبہ غزوہ ذات الرقاع میں آپ کا ہار گم ہوا۔ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا اور دوسرے لوگوں کو تلاش کرنے کے سبب اس میدان میں رکنا پڑا۔ طبرانی کی ایک روایت اس موقف کی مؤید ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : جب میرے ہار گم ہو جانے کا واقعہ پیش آیا اور بہتان لگانے والوں نے جو چاہا کہا۔ پھر اس کے بعد میں دوبارہ کسی غزوے میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ گئی، وہاں پھر میرا ہار گم ہو گیا اور لوگوں کو اس کی تلاش کے لیے رکنا پڑا تو اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا بیٹی !تو ہرسفر میں لوگوں کے لیے مصیبت کھڑی کر دیتی ہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے تیمم کی رخصت نازل فرمائی ۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کا ہار دوبارہ گم ہوا اور تیمم کی آیت دوسرے سفر سے متعلق ہے۔ اگرچہ اس روایت کی سند میں محمد بن حمید رازی کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے، تاہم تائید و شواہد میں اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ ذات الرقاع سے متعلق ہے۔ یہ غزوہ خیبر کے بعد پیش آیا۔ غزوہ خیبر سات ہجری میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت تیمم نازل ہوئی تو میں نہیں جانتا تھا کہ تیمم کا عمل کیسے کروں؟اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تیمم کے نزول کے وقت حضرت ابوہریرہ ؓ موجود تھے، کیونکہ آپ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے جبکہ غزوہ بنی مصطلق چھ ہجری میں ہو چکا تھا۔ نیز حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ جو غزوہ خیبر کے موقع پر یمن سے آئے تھے، ان کی غزوہ ذات الرقاع میں شرکت سے بھی اس موقف کی مزید تائید ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 1/564) 3۔ جب لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس ان کی دختر نیک اختر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے متعلق شکایت کی کہ ہمیں اس بےآب و گیاہ میدان میں ان کی وجہ سے رکنا پڑا ہے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اس سے تکلیف ہوئی۔ آپ نے حضرت عائشہ ؓ کو ملامت کرنا شروع کردی کہ تمھاری بے احتیاطی کی وجہ سے لوگوں کو اس لق ودق میدان میں رکنا پڑا اور ان کی نمازیں پانی نہ ملنے کی وجہ سے قضا ہونے والی ہیں۔ آپ نے ہاتھ سے بھی حضرت عائشہ ؓ کو کچو کے لگائے۔ اس انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اجنبی آدمی کسی کو اس کی غلطی پر تنبیہ کر رہا ہو۔ تنبیہ کا یہ انداز شفقت پدری کے خلاف تھا کہ زبان سے بھی ملا مت اور ہاتھ سے بھی طعن ۔ اس بنا پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ابو بکر ؓ مجھ پر عتاب فرمانے لگے۔ اور آپ نے ان کے لیے ’’پدر بزرگوار ‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ (فتح الباري:562/1)