تشریح:
1۔ اس حدیث میں مفہوم عدد کو تمام محدثین نے غیر معتبر قراردیا ہے، کیونکہ دیگر احادیث کے پیش نظر خصائص نبویہ اس عدد میں منحصر نہیں۔ چنانچہ علامہ سیوطی ؒ نے اپنی تالیف الخصائص الکبری میں بے شمار خصائص ذکر کیے ہیں جو سیکڑوں سے متجاوز ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث کے دیگر طرق کو مد نظر رکھتے ہوئے متعدد وخصائص کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے کچھ حسب ذیل ہیں: © رسول اللہ ﷺ کو جو امع الکلم عطا کیے گئے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1167 (523)) © آپ کی آمد کے ساتھ منصب نبوت کو سر بمہر کر دیا گیا۔ (صحیح البخاري، المناقب حدیث:3535) © آپ کی امت کی صف بندی کو فرشتوں کی صفوں جیسا قراردیا گیا۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:968 (430)) © آپ کو سورہ بقرہ کی آخری آیات دی گئیں جو عرش کے خزانوں میں سے ہیں۔ (مسند احمد:5/15) © آپ کو روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عنایت کی گئیں۔ (صحیح البخاری، الجنائز، حدیث: 1344) © آپ کی امت کو بہترین امت قراردیا گیا۔ (جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:3001) © قیامت کے دن آپ کو حوض کوثر اور حمد کا جھنڈا دیا جائے گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4964۔ وجامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3148) © آپ کا قرین (شیطان ) آپ کے تابع کردیا گیا۔ (صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 108 (2814)) امام ابو سعید نیشاپوری ؒ نے اپنی تالیف "شرف المصطفیٰ" میں ایسی ساٹھ خصلتوں کا ذکر کیا ہے جو آپ کے ساتھ مخصوص ہیں۔ (فتح الباري:1/589) 2۔ اسم سابقہ میں یہ پابندی تھی کہ وہ نماز کی ادائیگی اپنے کنیسوں اور عبادت گاہوں میں کریں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھ سے پہلے لوگوں کو نمازیں اپنے کنائس میں پڑھنے کا پابند کیا گیا تھا۔‘‘ (فتح الباري:587/1) لیکن امت کے لیے نماز کے لیے مقامات کی تعیین کو اٹھا دیا گیا۔ اس کی وضاحت حدیث میں بایں طور پر ہے کہ میری امت میں جس شخص کو جس جگہ بھی نماز کا وقت آجائے۔ اگر پانی نہ ملے تیمم کر کے نماز پڑھ لے۔ نوافل کے لیے مسجد کی پابندی ضروری نہیں۔ البتہ فرض نماز حتی المقدور مسجد ہی میں ادا کرنی چاہیے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے جو شخص اذان سنتا ہے ، پھر نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں نہیں آتا تو اس کی نماز نہیں ہے، ہاں اگر کوئی مجبوری ہوتو الگ بات ہے۔ (سنن ابن ماجة، المساجد و الجماعات، حدیث:793) علامہ خطابی ؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں: یقیناً رسول اللہ ﷺ نے تمام روئے زمین کو مسجد قراردیا ہے، تاہم ایک دوسری حدیث کے پیش نظر اس سے دو مقامات کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ قبرستان اور حمام کے علاوہ تمام روئے زمین مسجد میں ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:492 و إعلام الحدیث، شرح البخاري:133/1) نیز اجماع امت کو مدنظر رکھتے ہوئے نجس مقامات بھی اس سے مستثنیٰ ہیں۔ کیونکہ نماز کی ادائیگی کے لیے جگہ کا پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 165 (522)) علامہ خطابی ؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ اس میں الفاظ ارض مجمل ہے جس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں کی گئی ہے کہ اس سے مراد زمین کی مٹی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ہمارے لیے تمام روئے زمین کو مسجد قراردیا گیا ہے اور اگر ہم پانی حاصل نہ کر سکیں تو اس کی مٹی کو ہمارے لیے طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔‘‘ (إعلام الحدیث، شرح البخاري:334/1) اس سے معلوم ہوا کہ تیمم صرف زمین کی مٹی سے ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ زمین کے دیگر اجزاء سے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:132/1) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ بعض حضرات نے حدیث مسلم میں آنے والے لفظ تربة کے پیش نظر تیمم کے لیے صرف مٹی کے کار آمد ہونے والے موقف پر اعتراض کیا ہے کہ تربة سے صرف مٹی مراد لینا درست نہیں، لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ ایک روایت میں واضح طور پر لفظ تراب آیا ہے جس کے معنی مٹی ہیں۔ ’’چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ میرے لیے مٹی کو طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔‘‘ (فتح الباري:568/1) اس کے علاوہ حضرت علی ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی لفظ تراب ہے جسے امام احمد ؒ اور امام بیہقی ؒ نے بیان کیا ہے۔ نوٹ: حدیث میں وارد دیگر خصائص نبویہ کی تشریح کتاب الجہاد حدیث 3122 میں کی جائے گی۔