قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا} [النساء: 125] إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ(النحل:120)وقولہ:(إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ)(التوبۃ:114))

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وقال ابو ميسرة : الرحيم بلسان الحبشة .

3358. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلَّا ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ، ثِنْتَيْنِ مِنْهُنَّ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَوْلُهُ {إِنِّي سَقِيمٌ} [الصافات: 89]. وَقَوْلُهُ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا} [الأنبياء: 63]. وَقَالَ: بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ، إِذْ أَتَى عَلَى جَبَّارٍ مِنَ الجَبَابِرَةِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ هَا هُنَا رَجُلًا مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَ: أُخْتِي، فَأَتَى سَارَةَ قَالَ: يَا سَارَةُ: لَيْسَ عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرَكِ، وَإِنَّ هَذَا سَأَلَنِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، فَلاَ تُكَذِّبِينِي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ ذَهَبَ يَتَنَاوَلُهَا بِيَدِهِ فَأُخِذَ، فَقَالَ: ادْعِي اللَّهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكِ، فَدَعَتِ اللَّهَ فَأُطْلِقَ، ثُمَّ تَنَاوَلَهَا الثَّانِيَةَ فَأُخِذَ مِثْلَهَا أَوْ أَشَدَّ، فَقَالَ: ادْعِي اللَّهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكِ، فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ، فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَمْ تَأْتُونِي بِإِنْسَانٍ، إِنَّمَا أَتَيْتُمُونِي بِشَيْطَانٍ، فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ، فَأَتَتْهُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ: مَهْيَا، قَالَتْ: رَدَّ اللَّهُ كَيْدَ الكَافِرِ، أَوِ الفَاجِرِ، فِي نَحْرِهِ، وَأَخْدَمَ هَاجَرَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ تِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

ابومیسرہ(عمروبن شرجیل)نے کہا کہ (اواہ)حبشی زبان میں رحیم کے معنی میں ہے۔

3358.

حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابراہیم ؑ نے صرف تین مرتبہ خلاف واقعہ بات کی ہے۔ ان میں سے دوتواللہ کی ذات ستودہ صفات کے متعلق تھیں۔ پہلے آپ کا یہ کہنا: ’’میں بیمارہوں۔‘‘ دوسری بات ان کا کہنا: ’’بلکہ یہ ان کے بڑے بت نے کیا ہے۔‘‘ اور آپ نے فرمایا: (تیسری بات یہ ہے کہ) ایک دن وہ اور (ان کی بیوی) سارہ (سفرکرتے کرتے ) ایک ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرے تو اس (بادشاہ) سے کہا گیا: یہاں ایک مرد آیاہے۔ اس کے ساتھ بہت خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس بادشاہ نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا اور سارہ کے متعلق پوچھا کہ وہ کون ہے؟ انھوں نے (حضرت ابراہیم ؑ نے) جواب دیا: یہ میری بہن ہے۔ اس کے بعد آپ سارہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: اے سارہ! میرے اور تیرے سوا اس سر زمین میں کوئی مومن نہیں ہے۔ اس ظالم بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تھا تو میں نے اسے بتایا کہ تو میری بہن ہے، لہٰذا تونے مجھے جھٹلانا نہیں۔ اس دوران میں اس ظالم نے سارہ کی طرف آدمی بھیجا۔ جب آپ اس کے پاس گئیں تو اس نے اپنے ہاتھ سے سارہ کو پکڑنا چاہا تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ اس نے سارہ سے کہا: میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاؤں گا۔ سارہ نے اللہ سے دعا کی تو اسے نجات مل گئی۔ اس نے دوبارہ حضرت سارہ کو پکڑنا چاہا تو پہلےسے زیادہ گرفت میں آگیا۔ اس نے سارہ سے کہا: میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تمھیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ چنانچہ انھوں نے دعا کی تو اس کی خلاصی ہوگئی۔ پھر اس نے اپنے خادم کو بلایا اور کہا: تم میرے پاس انسان نہیں بلکہ کوئی شیطان لائے ہو اور سارہ کو بطور خدمت ہاجرہ دے کر واپس بھیج دیا۔ وہ (حضرت سارہ ان) حضرت ابراہیم ؑ کے پاس واپس آئیں تو آپ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے پوچھا: تمھارا حال کیسے رہا؟ سارہ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا فاجرکی تدبیر کو الٹا اس کے خلاف کردیا اور اس نے خدمت کے لیے ہاجرہ بھی دی ہے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ  ؓنے فرمایا: اے آسمانی پانی کی اولاد! تمھاری والدہ یہی ہاجرہ ہیں۔