تشریح:
(فاقد الطهورين) (پانی اور مٹی دونوں چیزیں نہ پانے والے ) کے متعلق امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ موقف ہے کہ وہ ایسی حالت میں وضو اور تیمم کے بغیر نماز ادا کرلے، اس کی نماز صحیح ہوگی اور اس کے ذمے کوئی قضا وغیرہ نہیں، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ ’’جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ (التغابن:64 ۔ 16) نیز قرآن مجید میں ہے:﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ (البقرة:2/286) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’جب میں تمھیں کسی کام کے متعلق حکم دوں تو حسب استطاعت بجا لاؤاور جب تمھیں کسی چیز سے منع کروں تو وہ چھوڑدو۔‘‘ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث:7288) گویا تکلیف بقدر طاقت ہے اور ایسا شخص جسے نماز تو ادا کرنی ہے۔ لیکن پانی یا مٹی جس سے طہارت حاصل کر سکے میسر نہیں تو اپنی استطاعت کے مطابق یہی کچھ کر سکتا ہے کہ اسی حالت میں نماز پڑھے اور اللہ سے توبہ و استغفار کرے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ کیونکہ حضرت اسید بن حضیر ؓ اور ان کے رفقاء جب ہار کی تلاش میں نکلے تو ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں آلہ طہارت (پانی اور مٹی ) موجود نہیں تھا۔ پانی کے متعلق تو حدیث میں وضاحت ہے کہ وہ تھا ہی نہیں اور مٹی اس طرح موجود نہ تھی کہ اس وقت تیمم کا حکم ہی نہ اترا تھا۔ اس بنا پر انھوں نے یوں ہی نماز پڑھ لی، چنانچہ حدیث کے بعض طرق میں صراحت ہے کہ انھوں نے وضو کے بغیر نماز ادا کی۔ (صحیح البخاري، الفضائل، حدیث:3773) استدلال کا مدار اس بات پر ہے کہ حضرت اسید بن حضیر ؓ اور ان کے ساتھیوں نے نماز وضو کے بغیر پڑھی تھی، اسے برقرار رکھا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو راوی حدیث ضرور اس کا ذکر کرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کی وہی بلا طہارت نماز صحیح قراردی گئی، کیونکہ اگر نماز کا اعادہ ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان کرتے اور ضرورت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا جائز نہیں، اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس نماز کا اعادہ فوراً واجب نہیں تھا۔ اس لیے ضرورت کے وقت بیان مؤخر نہیں ہوا۔ (فتح الباري:570/1) لیکن یہ اعتراض اس لیے صحیح نہیں کہ جب نماز کے ادا کرنے کا تقاضا موجود تھا تو اس کا اعادہ بھی فوری طور پر واجب تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انھیں اعادے کا حکم نہیں دیا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ نماز کے متعلق اپنی ذمے داری سے فارغ ہو چکے تھے۔ علامہ خطابی ؒ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے، لیکن انھوں نے اسے بایں طور مشروط کیا ہے کہ جب حالات ساز گارہوں، یعنی پانی یا مٹی میسر ہو تو نماز از سر نو ادا کرنی ہو گی۔ (إعلام الحدیث:339/1) لیکن اس کے لیے انھوں نے کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:’’مولف نے اس کو ظاہر حدیث سے ثابت کیا ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب لوگوں نے اس تکلیف کا اظہار کیا تو آپ نے انھیں نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا، مگر فرق یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے فقدان تراب یعنی مٹی کا نہ ملنا حکمی تھا۔ اس لیے تیمم بھی ان کے لیے مشروع و مقرر نہ کیا گیا ۔اور آج کل اگر ایسی صورت بن جائے تو یہاں فقدان حقیقی ہوگا اور اسے بھی حکمی کے دائرے میں شمار کیا جائے گا، یعنی اس حالت میں ادا کی ہوئی نماز جائز ہو جائے گی۔ اس کا دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہو گا۔ ‘‘ واللہ أعلم ۔