مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3388.
حضرت ابو ذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد حرام۔‘‘ میں نے عرض کیا: پھر کونسی؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجداقصیٰ۔‘‘ میں نے دریافت کیا: ان دونوں میں کتنی مدت کا فاصلہ تھا؟ آپ نے فرمایا: ’’چالیس سال کا، مگر جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لو کیونکہ فضیلت اسی میں ہے۔‘‘
تشریح:
اس مقام پر ایک مشہور اشکال ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے تعمیر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔ برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔ (آل عمران:96/3) اور اس کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ نے کی جبکہ مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان ؑ نے تعمیر کیا اور ان کے درمیان ایک ہزار سے بھی زیادہ سال کا فاصلہ ہے جبکہ اس حدیث میں چالیس سال مذکورہ ہیں۔ دراصل آیت کریمہ اور حدیث مذکور کا یہ مدلول نہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ نے ان کو سب سے پہلے بنایا تھا بلکہ انھوں نے تو پہلی بنیادوں کی تجدید کی تھی کیونکہ بیت اللہ حضرت ابراہیم ؑ اور بیت المقدس حضرت سلیمان ؑ سے پہلے تعمیر ہو چکے تھے روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم ؑ نے بیت اللہ تعمیر کیا لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت آدم ؑ کی اولاد میں سے کسی نے اپنی ضرورت کے پیش نظر اس کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر کی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کو سب سے پہلے فرشتوں نے بنایا ہواور ان کی تعمیر میں چالیس سال کا فرق ہو۔ البتہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی طرف نسبت اس لیے کی گئی کہ انھوں نے ان کی تجدید کی تھی۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:495/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3238
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3366
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3366
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3366
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلقہ احادیث ذکر کی جائیں گی لیکن ان کی نوعیت پہلی احادیث کے اعتبار سے مختلف ہوگی۔یہ عنوان پہلے عنوان کا تتمہ اور تکملہ ہے۔
حضرت ابو ذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد حرام۔‘‘ میں نے عرض کیا: پھر کونسی؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجداقصیٰ۔‘‘ میں نے دریافت کیا: ان دونوں میں کتنی مدت کا فاصلہ تھا؟ آپ نے فرمایا: ’’چالیس سال کا، مگر جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لو کیونکہ فضیلت اسی میں ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس مقام پر ایک مشہور اشکال ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے تعمیر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔ برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔ (آل عمران:96/3) اور اس کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ نے کی جبکہ مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان ؑ نے تعمیر کیا اور ان کے درمیان ایک ہزار سے بھی زیادہ سال کا فاصلہ ہے جبکہ اس حدیث میں چالیس سال مذکورہ ہیں۔ دراصل آیت کریمہ اور حدیث مذکور کا یہ مدلول نہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ نے ان کو سب سے پہلے بنایا تھا بلکہ انھوں نے تو پہلی بنیادوں کی تجدید کی تھی کیونکہ بیت اللہ حضرت ابراہیم ؑ اور بیت المقدس حضرت سلیمان ؑ سے پہلے تعمیر ہو چکے تھے روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم ؑ نے بیت اللہ تعمیر کیا لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت آدم ؑ کی اولاد میں سے کسی نے اپنی ضرورت کے پیش نظر اس کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر کی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کو سب سے پہلے فرشتوں نے بنایا ہواور ان کی تعمیر میں چالیس سال کا فرق ہو۔ البتہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی طرف نسبت اس لیے کی گئی کہ انھوں نے ان کی تجدید کی تھی۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:495/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابوذر ؓسے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مسجد حرام۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے عرض کیا اور اور اس کے بعد؟ فرمایا کہ مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) میں نے عرض کیا، ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر فرمایا اب جہاں بھی تجھ کو نماز کا وقت ہوجائے وہاں نماز پڑھ لے۔ بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
منکرین حدیث نے اس روایت کو بھی تختہ مشق بناکر حدیث نبوی سے مسلمانوں کو بدظن کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے اور یہ شبہ یہاں ظاہر کیا ہے کہ کعبہ کو تو حضرت ابراہیم ؑ نے بنایا تھا اور مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان ؑ نے بنایا اور ان دونوں میں ہزار سال سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہے۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے کعبہ کو پہلے پہل نہیں بنایا تھا بلکہ کعبہ کی پہلی بنا حضرت آدم ؑ کے ہاتھوں ہوئی ہے تو ممکن ہے کعبہ بننے کے چالیس سال بعد خود حضرت آدم ؑ یا ان کی اولاد میں سے کسی نے مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی ہردو بناؤں سے ان مقامات مقدسہ کی تجدید مراد ہے۔ شارحین حدیث لکھتے ہیں۔ ویرفع الإشکال بأن یقال الآیة والحدیث لایدلان علی بناء إبراهیم و سلیمان لما بنیا ابتداء وضعهما لهما بل ذالك تجدید لما کان أسسه غیرهما و بدأہ و قدروي أن أول من بنا البیت آدم و علی هذا فیجوز أن یکون غیرہ من ولدہ وضع بیت المقدس من بعدہ أربعین انتهی قلت بل آدم هو الذي وضعه أیضا قال الحافظ ابن حجر في کتابه التیجان لأبن هشام أن آدم لما بنی الکعبة أمرہ اللہ تعالیٰ السیر إلی بیت المقدس وأن یبنیه فبناہ و نسك فیه۔(سنن نسائی، جلد: اول، ص:112)یعنی آیت اور حدیث ہر دو کا اشکال یوں رفع کیا جاسکتا ہے کہ ہر دو اس امر پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ ان ہر دو کی ابتدائی بنیاد ان دونوں بزرگوں نے رکھی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہردو کی ابتدائی بنیاد غیروں کے ہاتھوں کی ہے اور یہ دونوں حضرات ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ ان ہر دو مقامات کی تجدید کرنے والے ہیں اور مروی ہے کہ شروع میں بیت اللہ کو حضرت آدم ؑ نے بنایا اور اس کی بنیاد پر ممکن ہے کہ ان کی اولاد میں سے کسی نے ان کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی بنیاد رکھی ہو۔ میں کہتا ہوں کہ خود آدم ؑ نے اس کی بھی بنیاد رکھی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت آدم ؑ نے کعبہ کو بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ بیت المقدس جائیں اور اس کی بنیاد رکھیں۔ چنانچہ وہ تشریف لائے اور بیت المقدس کو بنایا اور وہاں عبادت الٰہی بجالائے۔ علامہ سندی فرماتے ہیں: لیس المراد بناءإبراهیم للمسجد الحرام و بناء سلیمان للمسجد الأقصیٰ فإن بینهما مدة طویلة بل المراد البناء سوالھذین البنائین(حوالہ مذکور)یعنی حدیث میں ان ہر دومساجد کی ابراہیمی اور سلیمانی بنیادیں مراد نہیں ہیں۔ ان کے درمیان تو طویل مدت کا فاصلہ ہے۔ بلکہ ان ہر دو کے سوا ابتدائی بناء مراد ہیں۔ بائیبل تواریخ2 باب3 آیات1-2 میں مذکور ہے کہ بیت المقدس کو حضرت سلیمان ؑ نے اپنے آباءو اجداد کی پرانی نشانیوں پر تعمیر کیا تھا جس سے بھی واضح ہے کہ بیت المقدس کے بانی اول حضرت سلیمان ؑ نہیں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dhar (RA): I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Which mosque was first built on the surface of the earth?" He said, "Al-Masjid-ul-,Haram (in Makkah)." I said, "Which was built next?" He replied "The mosque of Al-Aqsa ( in Jerusalem) ." I said, "What was the period of construction between the two?" He said, "Forty years." He added, "Wherever (you may be, and) the prayer time becomes due, perform the prayer there, for the best thing is to do so (i.e. to offer the prayers in time)."