قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} [يوسف: 7])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3388. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ رُومَانَ، وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ، عَمَّا قِيلَ فِيهَا مَا قِيلَ، قَالَتْ: بَيْنَمَا أَنَا مَعَ عَائِشَةَ جَالِسَتَانِ، إِذْ وَلَجَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، وَهِيَ تَقُولُ: فَعَلَ اللَّهُ بِفُلاَنٍ وَفَعَلَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: لِمَ؟ قَالَتْ: إِنَّهُ نَمَى ذِكْرَ الحَدِيثِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَيُّ حَدِيثٍ؟ فَأَخْبَرَتْهَا. قَالَتْ: فَسَمِعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَخَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا، فَمَا أَفَاقَتْ إِلَّا وَعَلَيْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا لِهَذِهِ» قُلْتُ: حُمَّى أَخَذَتْهَا مِنْ أَجْلِ حَدِيثٍ تُحُدِّثَ بِهِ، فَقَعَدَتْ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَئِنْ حَلَفْتُ لاَ تُصَدِّقُونِي، وَلَئِنِ اعْتَذَرْتُ لاَ تَعْذِرُونِي، فَمَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ يَعْقُوبَ وَبَنِيهِ، فَاللَّهُ المُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا أَنْزَلَ، فَأَخْبَرَهَا، فَقَالَتْ: بِحَمْدِ اللَّهِ لاَ بِحَمْدِ أَحَدٍ

مترجم:

3388.

حضرت مسروق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صدیقہ کائنات پر لگائے گئے بہتان کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میں ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی: اللہ تعالیٰ فلاں کو تباہ کرے اور وہ تباہ ہو بھی چکا۔ میں نے کہا: کیوں؟ انھوں نےبتایا کہ اسی نے تو یہ(جھوٹی)بات مشہور کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کون سی بات؟ پھر اس نے تمام واقعہ بیان کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کیا وہ واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رسول اللہ ﷺ کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ جب ہوش آیا تو سردی اور کپکپی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: ’’انھیں کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جو باتیں کہی جا رہی ہیں ان کے باعث انھیں بخار ہو گیا ہے۔ اس دوران میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اٹھ کر بیٹھ گئیں اور عرض کرنے لگیں، اگر میں قسم اٹھاؤں تو بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر خواہی کروں تو بھی نہیں سنو گے، لہٰذا میری اور آپ لوگوں کی مثال حضرت یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں کی سی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ تعالیٰ ہی کی مددچاہتا ہوں۔ اس کے بعد نبی ﷺ واپس تشریف لے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا اس نے وہ نازل فرمایا۔ جب آپ ﷺ نے اس کی خبر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی تو انھوں نے کہا: میں اس کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتی ہوں کسی اور کی تعریف نہیں کرتی۔