تشریح:
1۔ آیت کریمہ میں ﴿فَقَدْ كَذَّبُوا﴾ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے تشدید سے اس کے معنی ہیں۔ ’’انبیائے کرام کی تکذیب کی گئی۔‘‘ دوسرا تشدید کے بغیرجس کے معنی ہیں، ’’ان سے عدہ خلافی کی گئی۔‘‘ حضرت عائشہ ؓنے اسے تشدید کے ساتھ پڑھا اور حدیث میں اس کے معنی متعین کیے کہ انبیائے کرام کو ان کی قوم نے جھٹلایا تھا۔ حضرت عروہ نے عرض کیا: اگر اس کے معنی قوم کا جھٹلانا ہے تو اس میں ظن و گمان کی کیا بات ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا اس مقام پر ظن یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسری قراءت سے انکار نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک اس صورت میں یہ معنی ہوں گےکہ حضرات انبیائے کرام ؑ کو اپنے پیروکاروں کے متعلق یہ گمان ہوا کہ شاید وہ بھی وہ انھیں جھوٹا خیال کریں گے یعنی کذب بیانی یا وعدہ خلافی کی نسبت اللہ کی طرف نہیں بلکہ انبیائے کرام ؑ کے متبعین کی طرف ہوگی دراصل اس آیت کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے جب رسول مایوس ہو گئے اور انھوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان کے پاس اللہ کی مدد آپہنچی۔ حضرت عروہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مذکورہ موقف جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی۔ یہ کوئی فقہی اختلاف نہیں بلکہ قرآءت کے اختلاف کی وجہ سے اس آیت کے معنی میں اختلاف ہوا ایک نظریاتی موقف کی وضاحت مطلوب ہے۔ اس کی تفصیل ہم کتاب التفسیر میں بیان کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔ 2۔ حضرت یوسف ؑ بلاوجہ سات سال تک جیل میں پڑے رہے ایسے حالات میں انسان مایوس ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ کی مدد آئی اور ان کی رہائی کا سبب پیدا ہواچونکہ مذکورہ آیت سورہ یوسف میں ہے اور خود ان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آیا اس لیے امام بخاری ؒ نے اس روایت کو یہاں ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:509/6)