قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} [يوسف: 7])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3389. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: «بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ» فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: «يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ»، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: {اسْتَيْأَسُوا} [يوسف: 80] اسْتَفْعَلُوا، مِنْ يَئِسْتُ مِنْهُ مِنْ يُوسُفَ، {لاَ تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ} [يوسف: 87] مَعْنَاهُ الرَّجَاءُ

مترجم:

3389.

حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس آیت کے متعلق سوال کیا: ﴿حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ﴾ والی آیت میں كُذِبُوا تشدید کے ساتھ ہے یا بغیر تشدید کے؟ انھوں نے فرمایا : (تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہےکہ) ان کی قوم نے انھیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! انھیں تو یقین تھا کہ ان کی قوم انھیں جھٹلا رہی ہے پھر لفظ "ظن"کیوں استعمال ہوا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اے چھوٹے سے عروہ! بلاشبہ ان کو تو اس کا یقین تھا۔ میں نے عرض کیا: شاید یہ لفظ تشدید کے بغیر ہو، یعنی پیغمبروں نےخیال کیا کہ ان کے ساتھ جو مدد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ صحیح نہیں تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: معاذ اللہ! انبیائے کرام اپنے رب کے متعلق ایسا گمان ہر گز نہیں کر سکتے، البتہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ رسولوں کے اتباع (پیروکار ) جواپنے پر ایمان لائے تھے اور انھوں نے اپنے رسول کی تصدیق کی تھی، وہ جب عرصہ دراز تک آزمائش میں رہے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور انبیائے کرام بھی اپنی قوم کے جھٹلائے والوں (کے ایمان لانے) سے ناامید ہو گئے، انھوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ انھیں ماننے والے ہیں اب وہ بھی انھیں جھوٹا سمجھنے لگیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی مدد آپہنچی۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ)نے کہا {اسْتَيْأَسُوا} استفعلواکے وزن پر ہے جو يَئِسْتُ مِنْهُ سے نکلا ہے۔ برادران یوسف، حضرت یوسف سے ناامید ہو گئے تھے۔ ﴿وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ﴾ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ رہو بلکہ امید وار رہو۔