قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات وشمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى إِذْ رَأَى نَارًا} إِلَى قَوْلِهِ: {بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ طُوًى})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {آنَسْتُ} [طه: 10]: أَبْصَرْتُ، {نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ} [طه: 10] الآيَةَ " قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ المُقَدَّسُ: «المُبَارَكُ»، طُوًى: «اسْمُ الوَادِي»، {سِيرَتَهَا} [طه: 21]: «حَالَتَهَا وَالنُّهَى التُّقَى»، {بِمَلْكِنَا} [طه: 87]: «بِأَمْرِنَا»، {هَوَى} [طه: 81]: «شَقِيَ»، {فَارِغًا} [القصص: 10]: «إِلَّا مِنْ ذِكْرِ مُوسَى»، {رِدْءًا} [القصص: 34]: " كَيْ يُصَدِّقَنِي، وَيُقَالُ: مُغِيثًا أَوْ مُعِينًا، يَبْطُشُ وَيَبْطِشُ "، {يَأْتَمِرُونَ} [القصص: 20]: «يَتَشَاوَرُونَ، وَالجِذْوَةُ قِطْعَةٌ غَلِيظَةٌ مِنَ الخَشَبِ لَيْسَ فِيهَا لَهَبٌ». {سَنَشُدُّ} [القصص: 35]: «سَنُعِينُكَ، كُلَّمَا عَزَّزْتَ شَيْئًا فَقَدْ جَعَلْتَ لَهُ عَضُدًا» وَقَالَ غَيْرُهُ: كُلَّمَا لَمْ يَنْطِقْ بِحَرْفٍ أَوْ فِيهِ تَمْتَمَةٌ أَوْ فَأْفَأَةٌ فَهِيَ عُقْدَةٌ، {أَزْرِي} [طه: 31]: ظَهْرِي {فَيُسْحِتَكُمْ} [طه: 61]: فَيُهْلِكَكُمْ، {المُثْلَى} [طه: 63]: تَأْنِيثُ الأَمْثَلِ، يَقُولُ: بِدِينِكُمْ، يُقَالُ: خُذِ المُثْلَى خُذِ الأَمْثَلَ، {ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا} [طه: 64]، يُقَالُ: هَلْ أَتَيْتَ الصَّفَّ اليَوْمَ، يَعْنِي المُصَلَّى الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ، {فَأَوْجَسَ} [طه: 67]: أَضْمَرَ خَوْفًا، فَذَهَبَتِ الوَاوُ مِنْ {خِيفَةً} [هود: 70] لِكَسْرَةِ الخَاءِ. {فِي جُذُوعِ النَّخْلِ} [طه: 71]: عَلَى جُذُوعِ، {خَطْبُكَ} [طه: 95]: بَالُكَ. {مِسَاسَ} [طه: 97]: مَصْدَرُ مَاسَّهُ مِسَاسًا. {لَنَنْسِفَنَّهُ} [طه: 97]: لَنُذْرِيَنَّهُ. الضَّحَاءُ الحَرُّ. {قُصِّيهِ} [القصص: 11]: اتَّبِعِي أَثَرَهُ، وَقَدْ يَكُونُ أَنْ تَقُصَّ الكَلاَمَ. {نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ} [يوسف: 3]: {عَنْ جُنُبٍ} [القصص: 11]: عَنْ بُعْدٍ، وَعَنْ جَنَابَةٍ وَعَنِ اجْتِنَابٍ وَاحِدٌ " قَالَ مُجَاهِدٌ: {عَلَى قَدَرٍ} [طه: 40]: «مَوْعِدٌ»، {لاَ تَنِيَا} [طه: 42]: «لاَ تَضْعُفَا». {يَبَسًا} [طه: 77]: «يَابِسَا»، {مِنْ زِينَةِ القَوْمِ} [طه: 87]: «الحُلِيِّ الَّذِي اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ»، فَقَذَفْتُهَا: «أَلْقَيْتَهَا»، {أَلْقَى} [النساء: 94]: «صَنَعَ»، {فَنَسِيَ} [طه: 88]: «مُوسَى»، هُمْ يَقُولُونَهُ: «أَخْطَأَ الرَّبَّ» {أَلَّا يَرْجِعَ إِلَيْهِمْ قَوْلًا} [طه: 89]: «فِي العِجْلِ»

3393. حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ: حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الخَامِسَةَ، فَإِذَا هَارُونُ، قَالَ: هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ، ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ تَابَعَهُ ثَابِتٌ، وَعَبَّادُ بْنُ أَبِي عَلِيٍّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

انست کا معنی میں نے آگ دیکھی ( تم یہاں ٹھرو ) میں اس میں سے ایک چنگاری تمہارے پاس لے آؤں ۔ ابن عباس ؓنے کہا ‘ مقدس کا معنی مبارک ۔ طویٰ اس وادی کا نام تھا جہاں اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا ۔ سیرتھایعنی پہلی حالت پر ۔ نَھی یعنی پرہیزگاری ۔ بملکنا یعنی اپنے اختیار سے ۔ ھوی یعنی بد بخت ہوا فارغا یعنی موسیٰ کے سوا اورکوئی خیال دل میں نہ رہا ۔ رداءیعنی فریاد رس یا مددگار ۔ یبطش بضم طااور یبطش بکسر طا دونوں طرح قرات ہے ۔ یاتمرون یعنی مشورہ کرتے ہیں ۔ جذوۃ یعنی لکڑی کا ایک موٹا ٹکڑا جس میں سے آگ کا شعلہ نہ نکلے ( صرف اس کے منہ پر آگ روشن ہو ) سنشد عضدکیعنی تیری مدد کریں گے ۔ جب تو کسی چیز کو زور دے گویا تو نے اس کو عضد بازو دیا ۔ ( یہ سب تفسیریں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہیں ) اوروں نے کہا عقدۃکا معنی یہ ہے کہ زبان سے کوئی حرف یہاں تک کہ ت یا ف بھی نہ نکل سکے ۔ ازری یعنی پیٹھ فیسحتکم یعنی تم کو ہلاک کرے ۔ مثلیٰ ، امثل کی مونث ہے ۔ یعنی تمہارا دین خراب کرنا چاہتے ہیں ۔ عرب لوگ کہتے ہیں خذ المثلی خذ الامثل یعنی اچھی روش‘ اچھا طریقہ سنبھال ۔ ثم ائتواصفا یعنی قطار باندھ کر آؤ ۔ عرب لوگ کہتے ہیں آج تو صف میں گیا یا نہیں یعنی نماز کے مقام پر ۔ فاوجس یعنی موسیٰ کا دل دھڑکنے لگا خیفۃ کی اصل خوفۃ تھی واؤ کی بوجہ کسرہ ماقبل کے ی سے بدل دیا گیافی جذوع النخل یعنی علی جذوع النخل ۔ خطبک یعنی تیراحال ۔ مساس مصدر ہے ماسہ مساسا سے ۔ لامساس یعنی تجھ کو نہ چھوئے‘ نہ تو کسی کو چھوئے ۔ لننسفنہ یعنی ہم اس کو راکھ کرکے دریا میں اڑادیں گے ۔ لا تضحی ضحی سے ہے یعنی گرمی ۔ قُسَّیہِ یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا کبھی قص کا معنی کہنا اور بیان کرنا بھی آتا ہے ۔ ( سورۃ یوسف میں ) اسی سے نحن نقص علیک ہے ۔ لفظ عن جنب اور عن جنابۃ اور عن اجتناب سب کا معنی ایک ہی ہے یعنی دور سے ۔ مجاہد رحمہ اللہ نے کہا علی قدر یعنی وعدے پر ۔ لا تنیا یعنی سستی نہ کرو ۔ یبسا یعنی خشک ۔ من زینۃ القوم ۔ یعنی زیور میں سے جو نبی اسرائیل نے فرعون والوں سے مانگ کر لئے تھے ۔ فقذفتھایعنی میں نے اس کو ڈال دیا ۔ القی یعنی بنایا ۔ فنسی اس کا مطلب یہ ہے کہ سامری اوراس کے لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے غلطی کی جو اس بچھڑے کو خدا نہ سمجھ کر دوسری جگہ چل دیا ۔ ان لا یرجع الیھم قولا ۔ یعنی وہ بچھڑا ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتا تھا ۔تشریح:حضرت امام بخاری نے یہاں قرآن مجید کے بہت سے ان الفاظ کی وضاحت فرمائی ہے جو مختلف آیات میں بہ سلسلہ ذکر موسیٰؑ وارد ہوئے ہیں قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے موقع بہ موقع ان الفاظ کا سمجھنا بھی ضروری ہے اور ایسے شائقین کرام کے لئے بخاری شریف کے اس مقام سے بہترین روشنی مل سکے گی۔اللہ پاک ہر مسلمان مرد وعورت کو قرآن پاک اور بخاری شریف کا مطالعہ کرنے اور عور وتدبر کے ساتھ ان کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یہ بات ہر بھائی کو یاد رکھنی چاہیے کہ کہ قرآن حدیث کو سمجھنے کے لئے سر سری مطالعہ کافی نہیں ہے جو لوگ محض سر سری مطالعہ کرکے ان پاکیزہ علوم کے ماہر بننا چاہتے ہیں وہ ایک خطرناک غلطی میں مبتلاء ہیں بلکہ قرآن و حدیث کا بار بار مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے سچ ہے ( والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا) العنکبوت:69) آیت شریفہ کے مذکورہ مجاہد میں کتاب و سنت کا بنظربصیرت گہرامطالعہ کرنا بھی داخل ہے وباللہ التوفیق۔

3393.

حضر مالک بن صعصعہ  ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس رات کے متعلق بتایا جس میں آپ کو سیر کرائی گئی تھی اور فرمایا کہ پانچویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت جبرئیل ؑ نے کہا: یہ حضرت ہارون ؑ ہیں ان کو سلام کریں۔ میں نے ان کو سلام کیا، انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا: اے برادر محترم و نبی مکرم! خوش آمدید۔  ثابت اور عباد بن ابو علی نے، حضرت انس ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کرنے میں، حضرت قتادہ کی متابعت کی ہے۔