تشریح:
1۔ بنی اسرائل سے کہا گیا تھا کہ جب تم بیت المقدس میں داخل ہو تو سر جھکاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے اندرجاؤ لیکن انھوں نےسارا پروگرام ہی تبدیل کردیا۔ سرجھکانےکے بجائے اکڑ اکڑ کر داخل ہوئے اور زبان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی بجائے مہمل کلام بکنے لگے۔ یہ ان کی نادانی اور سرکشی تھی اور ان کا مقصد اللہ کے حکم کی مخالفت کرنا تھا۔ اس بنا پر وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوئے۔ ان پر طاعون کی بیماری مسلط کردی گئی چنانچہ ستر ہزار بنی اسرائیل ایک گھڑی میں لقمہ اجل بن گئے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو ہمیشہ عجز و انکسار اختیار کرتے ہوئےاللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنی چاہیے ان پر اصرار کرتے ہوئے اکڑنا اللہ کی طرف سے عذاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ أعاذنا اللہ منها۔