تشریح:
1۔ اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے، اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت برہنہ چلنا جائز ہے نیز علاج کے لیے یا آپریشن کے وقت مریض کو برہنہ دیکھاجائز ہے اور حضرات انبیاء ؑ ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک ہوتے ہیں اور جو کوئی کسی نبی کی خلقت میں عیب لگائے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔ ایسے کام کرنا نبی کو اذیت پہچانا ہے اور اذیت رسانی حرام ہے۔ واللہ أعلم۔ 3۔ جو لوگ خرق عادت واقعات یا معجزات کے منکرہیں انھیں مذکورہ بالا تفسیر راس نہیں آسکتی تاہم اس حدیث کے الفاظ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ بھی اسے مان لیں کیونکہ عربی زبان میں حجر کے معنی گھوڑی کے بھی ہیں۔ اعتبار سے واقعہ یوں ہو گا کہ حضرت موسیٰ ؑ گھوڑی پر سوار تھے کسی تنہائی کے مقام پرنہانے لگے تو گھوڑی کو کھڑا کیا اور اسی پراپنے کپڑے رکھ دیے۔ جب فراغت کے بعد اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو گھوڑی دوڑ پڑی اور موسیٰ ؑ اس کے پیچھے ثوبی حجر ثوبی حجر کہتے ہوئے دوڑپڑے یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے آپ کو ننگے بدن دیکھا لیا کہ آپ بالکل بے داغ اور ان کی مزعومہ بیماری سے پاک ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ان لوگوں کے الزام سے بری کردیا۔ اسے تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔