تشریح:
1۔ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ انسانی شکل میں حاضر ہوا تھا۔ انھوں نے یہ خیال کر کے کہ ایک آدمی میرے گھر میں اجازت کے بغیر گھس آیا ہے اسے تھپڑ مارا مسند احمد میں ہے کہ موسیٰ ؑ کے تھپڑ مارنے سے ملک الموت کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ (مسند أحمد:315/2) شریعت نے ایسے آدمی کی آنکھ پھوڑدینے کی اجازت دی ہے جواجازت کے بغیرتانک جھانک کرتا ہے۔ (صحیح ابن حبان (الإحسان )115/14) امام لغوی نے بھی حافظ ابن حبان ؒ کی تائیدکی ہے۔ (شرح السنة:265/5) الغرض موسیٰ ؑ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ موت کا فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے آیا ہے جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ فرشتہ ہے روح قبض کرنا چاہتا ہےتو سر تسلیم خم کردیا۔ 2۔ موسیٰ ؑ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ارض مقدسہ کے قریب دفن کیا جائے تاکہ ان کی قبر پوشیدہ رہے اور امت کے جاہل لوگ اس کی عبادت شروع نہ کردیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ بنی اسرائیل اپنی شراتوں کی وجہ سے بیت المقدس میں داخلے سے محروم کردیے گئےتھے وہ چالیس سال تک میدان تیہ میں گھومتے رہے حتی کہ ہارون ؑ کی وفات اسی میدان میں ہوئی۔ حضرت موسیٰ ؑ ایک سال بعد جب فوت ہونے لگے تو تمنا کا اظہار کیا: اے اللہ! اگر داخلہ نہیں ہو سکا تو کم ازکم اس کا قرب ہی حاصل ہو جائے۔ واللہ أعلم۔