صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
28. باب: ( سورۃ طہ میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمان اور کیا تجھ کو موسیٰ کا واقعہ معلوم ہوا ہے اور ( سورۃ نساء میں ) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑسے کلام کیا
باب: ( سورۃ طہ میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمان اور کیا تجھ کو موسیٰ کا واقعہ معلوم ہوا ہے اور ( سورۃ نساء میں ) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑسے کلام کیا
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And to Moses Allah spoke directly.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3416.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس رات مجھے معراج ہوئی تو میں نے حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھا وہ ایک دبلے پتلے، سیدھے بالوں والے آدمی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاتھا کہ قبیلہ شنوءہ سے ہوں۔ اور میں نے حضرت موسیٰ ؑ کو بھی دیکھا وہ ایسے تروتازہ اور پاک وصاف جیسے ابھی غسل خانے سے نکلے ہیں۔ اور میں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے ان کے ساتھ نہایت بہت ملتاجلتاہوں۔ اس دوران میں میرے پاس دو برتن لائےگئے۔ ان میں سے ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی۔ جبرئیل ؑ نے کہا: آپ میدان میں سے جسے چاہیں نوش کریں۔ میں نے دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لیا اور اسےنوش کیا۔ تو مجھ سے کہا گیا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے۔ اگر آپ شراب پیتے تو آپ کی اُمت گمراہ ہوجاتی۔‘‘
تشریح:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’حضرت موسیٰ ؑ گندمی رنگ کے دراز قد والے تھے، ان کے بال سیدھے گویا وہ زط قبیلے کے فرد ہیں۔‘‘(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3438) حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت موسیٰ ؑ کوطویل ہونے کے اعتبار سے قبیلہ شنوءہ کے لوگوں سے تشبیہ دی ہے اور حضرت ابن عمر ؓؓ سے مروی حدیث میں بھی لمبا ہونے کے لحاظ سے قبیلہ زط کے لوگوں سے مشابہ قراردیا ہے کیونکہ حبشی لمبے ہوتے ہیں۔ ان دونوں احادیث میں کوئی مخالفت یاتضاد نہیں ہے۔ (فتح الباري:521/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3266
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3394
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3394
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3394
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اللہ کا کلام کرنا برحق ہے جس پر ایمان لانا فرض ہے اور اس میں کرید کرنا بدعت ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس رات مجھے معراج ہوئی تو میں نے حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھا وہ ایک دبلے پتلے، سیدھے بالوں والے آدمی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاتھا کہ قبیلہ شنوءہ سے ہوں۔ اور میں نے حضرت موسیٰ ؑ کو بھی دیکھا وہ ایسے تروتازہ اور پاک وصاف جیسے ابھی غسل خانے سے نکلے ہیں۔ اور میں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے ان کے ساتھ نہایت بہت ملتاجلتاہوں۔ اس دوران میں میرے پاس دو برتن لائےگئے۔ ان میں سے ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی۔ جبرئیل ؑ نے کہا: آپ میدان میں سے جسے چاہیں نوش کریں۔ میں نے دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لیا اور اسےنوش کیا۔ تو مجھ سے کہا گیا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے۔ اگر آپ شراب پیتے تو آپ کی اُمت گمراہ ہوجاتی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’حضرت موسیٰ ؑ گندمی رنگ کے دراز قد والے تھے، ان کے بال سیدھے گویا وہ زط قبیلے کے فرد ہیں۔‘‘(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3438) حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت موسیٰ ؑ کوطویل ہونے کے اعتبار سے قبیلہ شنوءہ کے لوگوں سے تشبیہ دی ہے اور حضرت ابن عمر ؓؓ سے مروی حدیث میں بھی لمبا ہونے کے لحاظ سے قبیلہ زط کے لوگوں سے مشابہ قراردیا ہے کیونکہ حبشی لمبے ہوتے ہیں۔ ان دونوں احادیث میں کوئی مخالفت یاتضاد نہیں ہے۔ (فتح الباري:521/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبردی‘ کہا ہم کومعمر نے خبردی‘ انہیں زہری نے‘ انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رات کی کیفیت بیا ن کی جس میں آپ کو معراج ہوا کہ میں نے موسیٰ ؑ کو دیکھا کہ وہ ایک دبلے پتلے سیدھے بالوں والے آدمی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قبیلہ شنوہ میں سے ہوں اور میں نے عیسیٰ ؑ کو بھی دیکھا‘ وہ میانہ قد اور نہایت سرخ و سفید رنگ والے تھے۔ ایسے تر و تازہ اور پاک و صاف کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل خانہ سے نکلے ہیں اور میں ابرہیم ؑ سے ان کی اولاد میں سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔ پھر دو برتن میرے سامنے لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی۔ جبریل ؑ نے کہا کہ دونوں چیزوں میں سے آپ کا جو جی چاہے پیجئے‘ میں نے دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے پی گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا (دودھ آدمی کی پیدائشی غذا ہے) اگر اس کے بجائے آپ نے شراب پی ہوتی تو آپکی امت گمراہ ہوجاتی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "On the night of my Ascension to Heaven, I saw (the prophet) Moses (ؑ) who was a thin person with lank hair, looking like one of the men of the tribe of Shanua; and I saw Jesus who was of average height with red face as if he had just come out of a bathroom. And I resemble prophet Abraham more than any of his offspring does. Then I was given two cups, one containing milk and the other wine. Gabriel (ؑ) said, 'Drink whichever you like.' I took the milk and drank it. Gabriel (ؑ) said, 'You have accepted what is natural, (True Religion i.e. Islam) and if you had taken the wine, your followers would have gone astray.' "