باب : حضرت موسی ؑ کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The death of Musa (Moses))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3430.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی آپس میں لڑ پڑے۔ مسلمان نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر برتری دی ہے! یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نےحضرت موسیٰ ؑ کو سب اہل جہاں پر فضیلت دی ہے! اس وقت مسلمانوں نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو طمانچہ رسید کردیا۔ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور اس واقعے کی اطلاع دی جو اس کے اور مسلمان کے درمیان ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حضرت موسیٰ ؑ پر برتری نہ دو کیونکہ جب تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا۔ میں دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ ؑ عرش کا کنارہ پکڑے ہوئے ہوں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو بے ہوش ہوگئے تھے لیکن مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے بے ہوشی سے مستثنیٰ کررکھا ہے؟‘‘
تشریح:
1۔ مذکورہ واقعہ حضرت موسیٰ ؑ سے متعلق ہے لیکن آپ کی زندگی کے بعد پیش آیا۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ مجھے دوسرے انبیائے کرام پر اس طرح فضیلت نہ دو کہ ان کی توہین کا پہلو نکلے۔ 2۔ حشر میں بے ہوش نہ ہونے والوں کا استثنا درج ذیل آیت میں ہے۔ ’’اور صورپھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی تمام مخلوق بے ہوش ہوجائے گی مگر وہ جسے اللہ تعالیٰ چاہے۔‘‘ (الزمر:68) ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ بھی اس استثناء میں شامل ہوں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3279
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3408
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3408
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3408
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی آپس میں لڑ پڑے۔ مسلمان نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر برتری دی ہے! یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نےحضرت موسیٰ ؑ کو سب اہل جہاں پر فضیلت دی ہے! اس وقت مسلمانوں نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو طمانچہ رسید کردیا۔ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور اس واقعے کی اطلاع دی جو اس کے اور مسلمان کے درمیان ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حضرت موسیٰ ؑ پر برتری نہ دو کیونکہ جب تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا۔ میں دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ ؑ عرش کا کنارہ پکڑے ہوئے ہوں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو بے ہوش ہوگئے تھے لیکن مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے بے ہوشی سے مستثنیٰ کررکھا ہے؟‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ مذکورہ واقعہ حضرت موسیٰ ؑ سے متعلق ہے لیکن آپ کی زندگی کے بعد پیش آیا۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ مجھے دوسرے انبیائے کرام پر اس طرح فضیلت نہ دو کہ ان کی توہین کا پہلو نکلے۔ 2۔ حشر میں بے ہوش نہ ہونے والوں کا استثنا درج ذیل آیت میں ہے۔ ’’اور صورپھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی تمام مخلوق بے ہوش ہوجائے گی مگر وہ جسے اللہ تعالیٰ چاہے۔‘‘ (الزمر:68) ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ بھی اس استثناء میں شامل ہوں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نےبیان کیا، کہاہم کوشعیب نےخبر دی، ان سے زہری نےبیان کیا، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمان اور سعید ین مسیب نےخبر دی اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ مسلمانوں کی جماعت کےایک آدمی اوریہودیوں میں سے ایک شخص کا جھگڑا ہوا قسم کھاتے ہوئے انہوں نے یہ کہا۔ اس پریہودی نے کہا، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسی ؑ کو ساری دنیا میں برگزیدہ بنایا۔ اس پرمسلمان نے ہاتھ اٹھا کر یہودی کو تھپڑ ماردیا۔وہ یہودی ،نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اوراپنے اورمسلمانوں کےجھگڑے کی آپ کوخبر دی۔ آپ نے اسی موقع پر فرمایا کہ مجھے حضرت موسی ؑ پر ترجیح نہ دیا کرو۔ لوگ قیامت کےدن بےہوش کردیے جائیں گےاورسب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا پھر دیکھوں گا کہ حضرت موسی ؑ عرش کا پایا پگڑے ہوئے کھڑے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ بھی بےہوش ہونےوالوں میں تھے اورمجھ سے پہلے ہی ہوش میں آگئے یا انہیں اللہ تعالی نے بےہوش ہونے والوں میں ہی نہیں رکھاتھا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی مجھ کودوسرے نبیوں پر اس طرح فضیلت نہ دوکہ ان کی توہین نکلے۔ یا یہ حکم اس وقت کاہے جب آپ کویہ نہیں بتلایا گیاتھاکہ آپ جملہ پیغمبروں سےافضل ہیں۔ یا یہ مطلب ہےکہ اپنی رائے سےفضیلت نہ دو جتنا شرع میں وارد ہواہے اتناہی کہو۔ حشر میں بےہوش نہ ہونے والوں کا استثنا اس آیت میں ہے۔ ﴿ونُفِخَ فِى الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فى السّمواتِ وَمَن فِى الاَرضِ اِلَّا من شآء الله﴾(الزمر :68)یعنی جس وقت صور پھونکا جائےگا توسب اہل محشر بےہوش ہوجائیں گےمگر جس کو اللہ چاہے گاوہ بےہوش نہ ہوگا۔ ممکن ہےکہ حضرت موسیٰ بھی اس استثنا میں شامل ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A Muslim and a Jew quarreled. The Muslim taking an oath, said, "By Him Who has preferred Muhammad over all people...!" The Jew said, "By Him Who has preferred Moses (ؑ), over all people." The Muslim raised his hand and slapped the Jew who came to the Prophet (ﷺ) to tell him what had happened between him and the Muslim. The Prophet (ﷺ) said, "Don't give me superiority over Moses (ؑ), for the people will become unconscious (on the Day of Resurrection) and I will be the first to gain consciousness to see Moses (ؑ) standing and holding a side of Allah's Throne. I will not know if he has been among those people who have become unconscious; and that he has gained consciousness before me, or he has been amongst those whom Allah has exempted."