باب : حضرت موسی ؑ کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The death of Musa (Moses))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3431.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت آدم ؑ نے آپس میں بحث کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان سے کہا: آپ ہی آدم ؑ ہیں کہ آپ کی لغزش نے آپ کو جنت سے نکالا۔ حضرت آدم ؑ نے انھیں جواب دیا کہ تم وہی موسیٰ ؑ ہو کہ تمھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور کلام سے نوازا، پھر تم مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جو میرے پیدا ہونےسے پہلے میرا مقدر بن چکی تھی؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت آدم ؑ حضرت موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔‘‘ آپ نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیر ہے۔ امام بخاری ؒکے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مباحثہ ان حضرات کی وفات کے بعد ہوا۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں شہداء کی طرح زندہ کردیا ہو اور انھوں نے یہ گفتگو کی ہو۔ 2۔ حضرت آدم ؑ کے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر درخت کا پھل کھانا لازم کردیا تھا کہ انھوں نے بے اختیار اور مجبور ہو کر اسے کھایا بلکہ مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو میری زندگی سے پہلے ہی مقدر کردیا تھا اور اپنے علم کی بنیاد پر یہ فیصلہ کردیا تھا کہ یہ ہو کر رہے گا اس لیے میں اللہ کے علم اور فیصلے کی خلاف ورزی کیونکر کر سکتا تھا اور آپ اللہ کے علم سابق سے بے خبر ہو کر صرف میرے اختیار اور کسب کا ذکر کرتے ہو جو ایک سبب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اصل معاملے کو بھول گئے ہو جو تقدیر سے عبارت ہے۔ (عمدة القاري:143/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3280
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3409
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3409
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3409
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت آدم ؑ نے آپس میں بحث کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان سے کہا: آپ ہی آدم ؑ ہیں کہ آپ کی لغزش نے آپ کو جنت سے نکالا۔ حضرت آدم ؑ نے انھیں جواب دیا کہ تم وہی موسیٰ ؑ ہو کہ تمھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور کلام سے نوازا، پھر تم مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جو میرے پیدا ہونےسے پہلے میرا مقدر بن چکی تھی؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت آدم ؑ حضرت موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔‘‘ آپ نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیر ہے۔ امام بخاری ؒکے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مباحثہ ان حضرات کی وفات کے بعد ہوا۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں شہداء کی طرح زندہ کردیا ہو اور انھوں نے یہ گفتگو کی ہو۔ 2۔ حضرت آدم ؑ کے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر درخت کا پھل کھانا لازم کردیا تھا کہ انھوں نے بے اختیار اور مجبور ہو کر اسے کھایا بلکہ مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو میری زندگی سے پہلے ہی مقدر کردیا تھا اور اپنے علم کی بنیاد پر یہ فیصلہ کردیا تھا کہ یہ ہو کر رہے گا اس لیے میں اللہ کے علم اور فیصلے کی خلاف ورزی کیونکر کر سکتا تھا اور آپ اللہ کے علم سابق سے بے خبر ہو کر صرف میرے اختیار اور کسب کا ذکر کرتے ہو جو ایک سبب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اصل معاملے کو بھول گئے ہو جو تقدیر سے عبارت ہے۔ (عمدة القاري:143/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نےبیان کیا، کہاہم سے ابراہیم بن سعد نےبیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سےحمید بن عبدالرحمن نے اور ان سےحضرت ابوہریرہ ؓ نےکہ رسول کریم ﷺ نےفرمایا، حضرت موسیٰ ؑ اورحضرت آدم ؑ نے آپس میں بحث کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان سے کہا کہ آپ آدم ہیں جہیں ان کی لغزش نےجنت سے نکالا۔ حضرت آدم ؑ بولے اورآپ موسیٰ ؑ ہیں کہ جنہیں اللہ تعالی نے اپنی رسالت اوراپنے کلام سےنوازا، پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے معاملے پرملامت کرتےہیں جواللہ تعالی نے میری پیدائش سےبھی پہلے مقدر کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، چنانچہ حضرت آدم ؑ حضرت موسی ؑ پر غالب آگئے۔ آ نحضرت ﷺ نے یہ جملہ دومرتبہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیرہے کہ اللہ تعالی نےان کوچن لیا اور پیغمبر ی عطا فرمائی۔ باب اور حدیث میں یہی وجہ مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Adam and Moses (ؑ) argued with each other. Moses (ؑ) said to Adam. 'You are Adam whose mistake expelled you from Paradise.' Adam said to him, 'You are Moses (ؑ) whom Allah selected as His Messenger and as the one to whom He spoke directly; yet you blame me for a thing which had already been written in my fate before my creation?"' Allah's Apostle (ﷺ) said twice, "So, Adam overpowered Moses (ؑ)."