صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
35. باب: (یونس علیہ السلام کا بیان) سورۃ الصافات میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان ”اور بلاشبہ یونس یقیناً رسولوں میں سے تھا“ اس قول تک ”تو ہم نے انہیں ایک وقت تک فائدہ دیا“
باب: (یونس علیہ السلام کا بیان) سورۃ الصافات میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان ”اور بلاشبہ یونس یقیناً رسولوں میں سے تھا“ اس قول تک ”تو ہم نے انہیں ایک وقت تک فائدہ دیا“
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And verily, Yunus was one of the Messengers...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مجاہد نے کہا ملیم گنہگار ‘ المشحونبوجھل بھری ہوئی ۔ فلو لا انہ کان من المسبحین ۔ آخر تک ۔ فنبذناہ باعرائکا معنی روئے زمین یقطین وہ درخت جو اپنی جڑ پر کھڑا نہیں رہتا جیسے کدو وغیرہ ۔ وارسلناہ الی مائۃ الف اویزیدون فامنوا فمتعناھم الی حین ۔ ( سورۃ ن میں فرمایا ) مکظوم جو کظیم کے معنی میں ہے یعنی مغموم رنجیدہ ۔
3436.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ ایک یہودی نے اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے رکھا۔ اس کو اس کی قیمت تھوڑی دی جارہی تھی جس سے وہ ناخوش تھا۔ اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی! یہ جملہ ایک انصاری مرد نے سن لیا، چنانچہ وہ کھڑا ہوا اور یہودی کے منہ پر طمانچہ دے مارا اور کہا کہ تو یہ بات کہتا ہے : قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی، حالانکہ نبی کریم ﷺ ہم میں موجود ہیں؟ وہ یہودی آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اے ابو القاسم! مجھے امان اور عہد مل چکا ہے۔ اس کے باوجود فلاں شخص کا کیا حال ہے کہ اس نے میرے منہ پر طمانچہ مارا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم نے اس کے منہ پر کیوں طمانچہ مارا؟‘‘ راوی نے بیان کیاکہ نبی کریم ﷺ یہ سن کر غصے سے بھر گئے حتیٰ کہ آپ کے چہرہ انور پر اس کے اثرات دیکھے گئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے انبیائے کرام ؑ کے درمیان ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ واقعہ یہ ہے کہ جب صور میں پھونکا جائے گا اورتمام زمین وآسمان والے بے ہوش ہوجائیں گے مگر جسے اللہ چاہے (وہ بے ہوش نہ ہو گا) پھر ا س میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو میں سب سے پہلے اٹھایا جاؤں گا، میں دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کو پکڑے ہوں گے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کو طور کے دن کی بے ہوشی کاعوض ملا ہے یا ان کو مجھ سے پہلے اٹھا دیا گیا۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3285
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3414
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3414
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3414
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے۔"اور بے شک یونس یقیناً رسولوں میں سے تھا ۔ جب وہ ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ کر گیا ۔ پھر(کشتی والوں نے)قرعہ ڈالا تو وہ ہار نے والوں میں سے ہوگیا۔ پھر اسے مچھلی نے نگل لیا جبکہ وہ(خود کو)ملامت کرنے والا تھا۔ پھر اگر یہ بات نہ ہوتی کہ بے شک وہ تسبیح کرنے والوں میں سے تھا تو یقیناً وہ لوگوں کے دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جانے کے دن (روز قیامت )تک اسی(مچھلی )کے پیٹ میں رہتا۔ پھر ہم نے اسے چٹیل میدان میں ڈال دیا جبکہ وہ بیمار تھا۔ اور ہم نے اس پر ایک بیل دار درخت (کدو)اُگادیا۔ اور ہم نے اسے ایک لاکھ (انسانوں )کی طرف بھیجا یا وہ(اس سے کچھ)زیادہ ہوں گے۔چنانچہ وہ لوگ ایمان لے آئے تو ہم نے انھیں ایک(مقرر)وقت تک فائدہ(اٹھانے کا موقع) دیا۔"(الصفت:37۔148)حضرت یونس علیہ السلام کو اہل نینواموجودہ موصل کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔قوم کی ہٹ دھرمی دیکھ کر اللہ کے حکم کے بغیر ہی ہجرت کر کے وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ جب ساحل سمندر پر پہنچے تو انھیں ایک بھری ہوئی کشتی ملی اس کے کہنے پر انھیں بھی سوار کر لیا گیا کشتی تھوڑا ہی چلی تھی کہ چکر کھانے لگی۔ ان لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ کشتی اس طرح چکر اس وقت کھاتی ہے جب بھاگا ہوا غلام اس میں سوار ہو۔یا انھوں نے کشتی کا وزن کم کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی تو حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکل آیا۔ انھوں نے اٹھا کر انھیں سمندر میں پھینک دیا۔ ادھر ایک وہیل مچھلی منہ کھولے کھڑی تھی چنانچہ اس نے فوراً ہی ان کو نگل لیا۔ پھر انھوں نے اندھیروں میں اللہ کو پکارا۔"تیرےسوا کوئی معبود برحق نہیں۔تو پاک ہے۔میں ہی قصور وار تھا۔"(الانبیاء21۔87)اللہ تعالیٰ نے ان کی التجا قبول فرمائی اور اس پریشانی سے انھیں نجات دی ادھر ان کی قوم نے اس قدر گریہ زاری کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب ٹال دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔" پھر کیوں نہ ہوئی کوئی بستی ایسی کہ وہ(عذاب سے پہلے)ایمان لائی ہو پھر اس کے ایمان نے اسے نفع دیا ہو سوائے قوم یونس کے۔ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیاوی زندگی میں ذلت کا عذاب ٹال دیا اور ہم نے ایک(مقرر )وقت تک انھیں (اس سے) فائدہ اٹھانے )دیا۔"(یونس:10۔98۔)حضرت یونس علیہ السلام کو قرآن نے(ذوالنون) یعنی مچھلی والا بھی کہا۔ انھیں آیت کریمہ کا درد کرنے سے نجات ملی۔ اس درد میں اب بھی یہی تاثیر ہے۔ ہم نے اس کا کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے۔ واللہ المستعان۔
مجاہد نے کہا ملیم گنہگار ‘ المشحونبوجھل بھری ہوئی ۔ فلو لا انہ کان من المسبحین ۔ آخر تک ۔ فنبذناہ باعرائکا معنی روئے زمین یقطین وہ درخت جو اپنی جڑ پر کھڑا نہیں رہتا جیسے کدو وغیرہ ۔ وارسلناہ الی مائۃ الف اویزیدون فامنوا فمتعناھم الی حین ۔ ( سورۃ ن میں فرمایا ) مکظوم جو کظیم کے معنی میں ہے یعنی مغموم رنجیدہ ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ ایک یہودی نے اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے رکھا۔ اس کو اس کی قیمت تھوڑی دی جارہی تھی جس سے وہ ناخوش تھا۔ اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی! یہ جملہ ایک انصاری مرد نے سن لیا، چنانچہ وہ کھڑا ہوا اور یہودی کے منہ پر طمانچہ دے مارا اور کہا کہ تو یہ بات کہتا ہے : قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی، حالانکہ نبی کریم ﷺ ہم میں موجود ہیں؟ وہ یہودی آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اے ابو القاسم! مجھے امان اور عہد مل چکا ہے۔ اس کے باوجود فلاں شخص کا کیا حال ہے کہ اس نے میرے منہ پر طمانچہ مارا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم نے اس کے منہ پر کیوں طمانچہ مارا؟‘‘ راوی نے بیان کیاکہ نبی کریم ﷺ یہ سن کر غصے سے بھر گئے حتیٰ کہ آپ کے چہرہ انور پر اس کے اثرات دیکھے گئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے انبیائے کرام ؑ کے درمیان ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ واقعہ یہ ہے کہ جب صور میں پھونکا جائے گا اورتمام زمین وآسمان والے بے ہوش ہوجائیں گے مگر جسے اللہ چاہے (وہ بے ہوش نہ ہو گا) پھر ا س میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو میں سب سے پہلے اٹھایا جاؤں گا، میں دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کو پکڑے ہوں گے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کو طور کے دن کی بے ہوشی کاعوض ملا ہے یا ان کو مجھ سے پہلے اٹھا دیا گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
امام مجاہد نے کہا: مُلِيمٌ کے معنی ہیں: گناہ گار الْمَشْحُونِ بھری ہوئی۔ "اگر وہ تسبیح پڑھنے والے نہ ہوتے(تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے)۔ " فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ ہم نے انھیں زمین کی سطح پر ڈال دیا۔ " وَهُوَ سَقِيمٌ ﴿١٤٥﴾ وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ "اور وہ بیمار تھے، پھر ہم نے ان پر یقطین کادرخت اگادیا۔ "اس سے مراد ایسادرخت جس کا تنا نہ ہو اور وہ کدو وغیرہ ہے۔ (فرمایا: )"ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے زیادہ آبادی کی طرف بھیجا، وہ ایمان لائے تو ہم نے ان کو کچھ مقررہ مدت تک کے لیے مزید مہلت دی۔ "(نیز فرمایا: )"اور آپ مچھلی والے(یونس) کی طرح نہ ہوں جب اس نے (اللہ کو) پکارا تھا جبکہ وہ غمسے بھرا ہوا تھا۔ " كَظِيمٌ کے معنی ہیں: مغموم
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیی بن بکیر نےبیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عبدالعزیز بن ابوسلمہ نے، ان سےعبداللہ بن فضل نے، ان سےاعرج نے اور ان سے ابوہریرہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ لوگوں کو ایک یہودی اپنا سامان دکھارہا تھا لیکن اسے اس کی جو قیمت لگائی گئی اس پر وہ راضی نہ تھا۔ اس لیے کہنے لگا کہ ہرگزنہیں، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا۔ یہ لفظ ایک انصاری صحابی نےسن لیے اورکھڑے ہوکر انہوں نے ایک تھپر اس کےمنہ پرمارا اور کہا کہ نبی کریم ﷺ ابھی ہم میں موجود ہیں اور تواس طرح قسم کھاتا ہےکہ اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسی ٰ ﷺ کوتمام انسانوں میں برگزیدہ قراردیا۔ اس پروہ یہودی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اورکہا، اسے ابوالقاسم! میرا مسلمانوں کےساتھ امن اور صلح کاعہد وپیمان ہے۔ پھر فلاں شخص کاکیا حال ہوگا جس نے میرے منہ پرچانٹا مارا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس صحابی سےدریافت فرمایا کہ تم نےاس کےمنہ پرکیوں چانٹا مارا؟ انہوں نے وجہ بیان کی تو آپ غصے ہوگئے اس قدر کہ غصے کےآثار چہرہ مبارک پرنمایا ں ہوگئے۔ پھر نبی کریمﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی کےانبیاء میں آپس میں ایک کودوسرے پرفضیلت نہ دیا کرو، جب صورپھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی تمام مخلوق پربے ہوشی طاری ہوجائے گی۔ سوا ان کےجنہیں اللہ تعالی چاہے گا۔ پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور سب سے پہلے مجھے اٹھایا جائے گا، لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ عرش کو پکڑےہوئے کھڑے ہوں گے، اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ انہیں طور کی بےہوشی کابدلا دیاگیا ہوگایا مجھ سے بھی پہلے ان کی بےہوشی ختم کردی گئی ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Once while a Jew was selling something, he was offered a price that he was not pleased with. So, he said, "No, by Him Who gave Moses (ؑ) superiority over all human beings!" Hearing him, an Ansari man got up and slapped him on the face and said, "You say: By Him Who Gave Moses (ؑ) superiority over all human beings although the Prophet (ﷺ) (Muhammad) is present amongst us!" The Jew went to the Prophet (ﷺ) and said, "O Abu-l-Qasim! I am under the assurance and contract of security, so what right does so-and-so have to slap me?" The Prophet (ﷺ) asked the other, "Why have you slapped". He told him the whole story. The Prophet (ﷺ) became angry, till anger appeared on his face, and said, "Don't give superiority to any prophet amongst Allah's Prophets, for when the trumpet will be blown, everyone on the earth and in the heavens will become unconscious except those whom Allah will exempt. The trumpet will be blown for the second time and I will be the first to be resurrected to see Moses (ؑ) holding Allah's Throne. I will not know whether the unconsciousness which Moses (ؑ) received on the Day of Tur has been sufficient for him, or has he got up before me.