تشریح:
1۔ حدیث جریج سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کی خدمت میں عظمت ہے اور بچوں کے حق میں اس کی دعا قبول ہوتی ہے اس کی دل آزاری سے پرہیز کرنا چاہیے،نیز وہ لونڈی جسے بلاوجہ ماراپیٹا جارہاتھا وہ اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھی۔ 2۔ان تین بچوں کے علاوہ بھی مختلف احادیث میں بچوں کی گفتگو کاذکر ہے، مثلاً:صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ گہوارے میں اس بچے نے بھی گفتگو کی تھی جس کی ماں کو "اصحاب الاخدود" آگ کے آلاؤ میں ڈالنے لگے تو وہ کچھ سہم گئی۔اس وقت شیر خوار بچے نے کہا:اے میری ماں! صبر کر تو حق پر ہے۔"(صحیح مسلم، الذھد والرقائق، حدیث:7511(3005)3۔ممکن ہے کہ گہوارے میں صرف تین بچوں نے گفتگو کی ہو اور باقی بچوں نے گہوارے کے علاوہ باتیں کی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں مذکورہ تین بچوں کے کلام کرنے کاتعلق صرف بنی اسرائیل سے ہو اور باقی بچے غیر بنی اسرائیل سے ہوں۔ امام بخاری ؒ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات سے آگاہی کے لیے اسے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس کی صراحت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’پھر وہ(مریم) بچے کو اٹھائے اپنی قوم میں لے آئیں تو وہ کہنے لگے:اے مریم ؑ! یقیناً تو نے بہت بُرا کام کیا ہے۔ اےہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔ مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ وہ کہنے لگے:ہم اس سے کیسے کلام کریں جو ابھی گود میں بچہ ہے۔ وہ(بچہ) بول اٹھا:بے شک میں اللہ کابندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘ (مریم:27-30)