قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّيَمُّمِ (بَابُ الصَّعِيدِ الطَّيِّبِ وَضُوءُ المُسْلِمِ، يَكْفِيهِ مِنَ المَاءِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ الحَسَنُ: «يُجْزِئُهُ التَّيَمُّمُ مَا لَمْ يُحْدِثْ» وَأَمَّ ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ مُتَيَمِّمٌ وَقَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: «لاَ بَأْسَ بِالصَّلاَةِ [ص:76] عَلَى السَّبَخَةِ وَالتَّيَمُّمِ بِهَا»

344.  حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ، قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّا أَسْرَيْنَا حَتَّى كُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ، وَقَعْنَا وَقْعَةً، وَلاَ وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ المُسَافِرِ مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ فُلاَنٌ، ثُمَّ فُلاَنٌ، ثُمَّ فُلاَنٌ - يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَاءٍ فَنَسِيَ عَوْفٌ ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ الرَّابِعُ - وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَامَ لَمْ يُوقَظْ حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ، لِأَنَّا لاَ نَدْرِي مَا يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ وَكَانَ رَجُلًا جَلِيدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ بِصَوْتِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ، قَالَ: «لاَ ضَيْرَ - أَوْ لاَ يَضِيرُ - ارْتَحِلُوا»، فَارْتَحَلَ، فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِالوَضُوءِ، فَتَوَضَّأَ، وَنُودِيَ بِالصَّلاَةِ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلاَتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ القَوْمِ، قَالَ: «مَا مَنَعَكَ يَا فُلاَنُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ القَوْمِ؟» قَالَ: أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلاَ مَاءَ، قَالَ: «عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ، فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ»، ثُمَّ سَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ العَطَشِ، فَنَزَلَ فَدَعَا فُلاَنًا - كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ نَسِيَهُ عَوْفٌ - وَدَعَا عَلِيًّا فَقَالَ: «اذْهَبَا، فَابْتَغِيَا المَاءَ» فَانْطَلَقَا، فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ - أَوْ سَطِيحَتَيْنِ - مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، فَقَالاَ لَهَا: أَيْنَ المَاءُ؟ قَالَتْ: عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ وَنَفَرُنَا خُلُوفٌ، قَالاَ لَهَا: انْطَلِقِي، إِذًا قَالَتْ: إِلَى أَيْنَ؟ قَالاَ: إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ، قَالاَ: هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ، فَانْطَلِقِي، فَجَاءَا بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدَّثَاهُ الحَدِيثَ، قَالَ: فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا، وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ، فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ المَزَادَتَيْنِ - أَوْ سَطِيحَتَيْنِ - وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا وَأَطْلَقَ العَزَالِيَ، وَنُودِيَ فِي النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا، فَسَقَى مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ وَكَانَ آخِرُ ذَاكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ، قَالَ: «اذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ»، وَهِيَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَى مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا، وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا، وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلْأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اجْمَعُوا لَهَا» فَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسَوِيقَةٍ حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا، فَجَعَلُوهَا فِي ثَوْبٍ وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِيرِهَا وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا، قَالَ لَهَا: «تَعْلَمِينَ، مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِكِ شَيْئًا، وَلَكِنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَسْقَانَا»، فَأَتَتْ أَهْلَهَا وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ، قَالُوا: مَا حَبَسَكِ يَا فُلاَنَةُ، قَالَتْ: العَجَبُ لَقِيَنِي رَجُلاَنِ، فَذَهَبَا بِي إِلَى هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ فَفَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأَسْحَرُالنَّاسِ مِنْ بَيْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ، وَقَالَتْ: بِإِصْبَعَيْهَا الوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ، فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ - تَعْنِي السَّمَاءَ وَالأَرْضَ - أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا، فَكَانَ المُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِكَ يُغِيرُونَ عَلَى مَنْ حَوْلَهَا مِنَ المُشْرِكِينَ، وَلاَ يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ، فَقَالَتْ: يَوْمًا لِقَوْمِهَا مَا أُرَى أَنَّ هَؤُلاَءِ القَوْمَ يَدْعُونَكُمْ عَمْدًا، فَهَلْ لَكُمْ فِي الإِسْلاَمِ؟ فَأَطَاعُوهَا، فَدَخَلُوا فِي الإِسْلاَمِ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: صَبَأَ: خَرَجَ مِنْ دِينٍ إِلَى غَيْرِهِ وَقَالَ أَبُو العَالِيَةِ: «الصَّابِئِينَ فِرْقَةٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ يَقْرَءُونَ الزَّبُورَأصب أمل »

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور حسن بصری نے کہا کہ جب تک اس کو حدث نہ ہو ( یعنی وضو توڑنے والی چیزیں نہ پائی جائیں ) تیمم کافی ہے اور ابن عباس ؓ نے تیمم سے امامت کی اور یحییٰ بن سعید انصاری نے فرمایا کہ کھاری زمین پر نماز پڑھنے اور اس سے تیمم کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔

 

تشریح : حضرت امام حسن بصری کے اس اثر کو عبدالرزاق نے موصولاً روایت کیا ہے، سنن میں اتنے الفاظ اور زیادہ ہیں وان لم یجد الماءعشرسنین ( ترمذی وغیرہ ) یعنی اگرچہ وہ پانی کو دس سال تک نہ پائے اور حضرت ابن عباس ؓ کے اثر مذکور کو ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام شوکانی منتقی کے باب تعیین التراب للتیمم دون بقیۃ الجامدات۔ ( یعنی تیمم کے لیے جمادات میں مٹی ہی کی تعیین ہے ) کے تحت حدیث وجعلت تربتھا لنا طہورا۔ ( اور اس زمین کی مٹی ہمارے لیے پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے ) لکھتے ہیں والحدیث یدل علی قصر التیمم علی التراب فیہ ( نیل الاوطار ) یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اس میں صراحتاً تراب مٹی کا لفظ موجود ہے۔ پس جو لوگ چونا، لوہا اور دیگرجملہ جمادات پر تیمم کرنا جائز بتلاتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں۔ شورزمین پر تیمم کرنا نماز پڑھنا، اس کی دلیل وہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا ہے جس میں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رایت دار ہجرتکم سبخۃ ذات نخل یعنی المدینۃ وقدسمی النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ الطبیۃ فدل ان السبخۃ داخلۃ فی الطیب ( قسطلانی ) میں نے تمہارے ہجرت کے گھر کو دیکھا جو اس بستی میں ہے جس کی اکثر زمین شورہے اور وہاں کھجوریں بہت ہوتی ہیں آپ نے اس سے مدینہ مرادلیا۔ جس کا نام آپ نے خود ہی مدینہ طیبہ رکھا۔ یعنی پاک شہر۔ پس ثابت ہوا کہ شورزمین بھی پاکی میں داخل ہے۔ پھر شور زمین کی ناپاکی پر کوئی دلیل کتاب وسنت سے نہیں ہے۔ اس لیے بھی اس کی پاکی ثابت ہوئی۔

344.

حضرت عمران بن حصین خزاعی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے اور رات بھر چلتے رہے۔ جب آخر شب ہوئی تو ہم کچھ دیر کے لیے سو گئے، اور مسافر کے نزدیک اس وقت سے زیادہ کوئی نیند میٹھی نہیں ہوتی۔ ہم ایسے سوئے کہ آفتاب کی گرمی ہی سے بیدار ہوئے۔ سب سے پہلے جس کی آنکھ کھلی وہ فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص اور پھر فلاں شخص۔ ابو رجاء ان (فلاں، فلاں اور فلاں) کے نام لیتے تھے، لیکن عوف بھول گئے ۔۔ پھر چوتھے حضرت عمر بن خطاب ؓ جاگے۔ اور (ہمارا دستور یہ تھا کہ) جب نبی ﷺ استراحت فرماتے تو کوئی آپ کو بیدار نہ کرتا تھا تا آنکہ آپ خود بیدار ہو جاتے کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ کو خواب میں کیا پیش آ رہا ہے؟ جب حضرت عمر ؓ نے بیدار ہو کر وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی، اور وہ دلیر آدمی تھے، تو انھوں نے بآواز بلند تکبیر کہنا شروع کی۔ سو وہ برابر اللہ أكبر بلند آواز سے کہتے رہے یہاں تک کہ ان کی آواز سے نبی ﷺ بیدار ہو گئے۔ جب آپ جاگے تو لوگوں نے آپ سے اس مصیبت کا شکوہ کیا جو ان پر پڑی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’کچھ حرج نہیں یا اس سے کچھ نقصان نہ ہو گا۔ چلو اب کوچ کرو۔‘‘ پھر لوگ روانہ ہوئے۔ تھوڑی سی مسافت کے بعد آپ اترے، وضو کے لیے پانی منگوایا اور وضو کیا، نماز کے لیے اذان دی گئی، اس کے بعد آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو اچانک ایک شخص کو گوشہ تنہائی میں بیٹھے دیکھا جس نے ہم لوگوں کے ساتھ نماز نہ پڑھی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اے فلاں شخص! تیرے لیے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کون سی چیز مانع ہوئی؟‘‘ اس نے عرض کیا: میں جنبی ہوں اور پانی موجود نہ تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے پاک مٹی سے تیمم کرنا چاہئے تھا۔ وہ تجھے کافی تھا۔‘‘ پھر نبی ﷺ چلے تو لوگوں نے آپ سے پیاس کی شکایت کی۔ آپ اترے اور حضرت علی ؓ اور ایک دوسرے شخص کو بلایا ۔۔ ابورجاء اس شخص کا نام لیتے تھے، عوف بھول گئے ۔۔ اور فرمایا: ’’تم دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو۔‘‘ چنانچہ وہ دونوں روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں ایک عورت ملی جو اپنے اونٹ پر پانی کی دو مشکوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی۔ انھوں نے اس سے دریافت کیا کہ پانی کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ پانی مجھے گزشتہ کل اسی وقت ملا تھا اور ہمارے مرد پیچھے ہیں۔ ان دونوں نے اس سے کہا: ہمارے ہمراہ چل۔ اس نے کہا: کہاں جانا ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ کے پاس۔ وہ بولی: وہی جسے بے دین کہا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں وہی ہے جنہیں تو ایسا سمجھتی ہے، چل تو سہی۔ آخر وہ دونوں اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے اور آپ سے سارا قصہ بیان کیا۔ حضرت عمران ؓ نے کہا: لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا اور نبی ﷺ نے ایک برتن منگوایا اور دونوں پکھالوں یا مشکوں کے منہ اس میں کھول دیے۔ پھر اوپر کا منہ بند کر کے نیچے کا منہ کھول دیا اور لوگوں کو اطلاع دی کہ خود بھی پانی پیو اور جانوروں کو بھی پلاؤ، تو جس نے چاہا خود پیا اور جس نے چاہا جانوروں کو پلایا اور بالآخر آپ نے یہ کیا کہ جس شخص کو نہانے کی ضرورت تھی اسے بھی پانی کا ایک برتن بھر کر دیا اور اس سے کہا: ’’جاؤ، اس سے غسل کرو۔‘‘ وہ عورت کھڑی یہ منظر دیکھتی رہی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اللہ کی قسم! جب پانی لینا بند کیا گیا تو ہمارے خیال کے مطابق وہ (مشکیں) اب اس وقت سے بھی زیادہ بھری ہوئی تھیں، جب آپ نے ان سے پانی لینا شروع کیا تھا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس عورت کے لیے کچھ جمع کرو۔‘‘ لوگوں نے کھجور، آٹا اور ستو اکٹھا کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ طعام کی ایک اچھی مقدار اس کے لیے جمع ہو گئی۔ جمع شدہ سامان انھوں نے ایک کپڑے میں باندھ دیا اور اسے اونٹ پر سوار کر کے وہ کپڑا اس کے آگے رکھ دیا۔ پھر آپ نے اس سے فرمایا: ’’تم جانتی ہو کہ ہم نے تمہارے پانی میں کچھ کمی نہیں کی بلکہ ہمیں تو اللہ نے پلایا ہے۔‘‘ پھر وہ عورت اپنے گھر والوں کے پاس واپس آئی۔ چونکہ وہ دیر سے پہنچی تھی، اس لیے انھوں نے پوچھا: اے فلاں عورت! تجھے کس نے روک لیا تھا؟ اس نے کہا: مجھے تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ اور وہ یہ کہ (راستے میں) مجھے دو آدمی ملے جو مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جس کو بے دین کہا جاتا ہے، اس نے ایسا ایسا کیا۔ اللہ کی قسم! جتنے لوگ اس (آسمان) کے اور اس (زمین) کے درمیان ہیں، اور اس نے اپنی درمیان والی اور شہادت والی انگلی اٹھا کر آسمان اور زمین کی طرف اشارہ کیا، ان سب میں سے وہ بڑا جادوگر ہے، یا وہ اللہ کا حقیقی رسول ہے۔ پھر مسلمانوں نے یہ کرنا شروع کر دیا کہ اس عورت کے اردگرد جو مشرک آباد تھے، ان پر تو حملہ آور ہوتے اور جن لوگوں میں وہ عورت رہتی تھی ان کو چھوڑ دیتے۔ آخر اس نے ایک دن اپنی قوم سے کہا: میرے خیال میں مسلمان تمہیں دانستہ چھوڑ دیتے ہیں، کیا تمہیں اسلام سے کچھ رغبت ہے؟ تب انھوں نے اس کی بات قبول کی اور مسلمان ہو گئے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں: صبا کے معنی ایک دن سے نکل کر دوسرے دین میں داخل ہونا ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا: صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور کی تلاوت کرتا ہے۔