قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّيَمُّمِ (بَابٌ: إِذَا خَافَ الجُنُبُ عَلَى نَفْسِهِ المَرَضَ أَوِ المَوْتَ، أَوْ خَافَ العَطَشَ، تَيَمَّمَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَيُذْكَرُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ العَاصِ: ’’ أَجْنَبَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ، فَتَيَمَّمَ وَتَلاَ: {وَلاَ تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29] فَذَكَرَ لِلنَّبِيِّ ﷺفَلَمْ يُعَنِّفْ ‘‘

346.  حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَرَأَيْتَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِذَا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدْ مَاءً، كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لاَ يُصَلِّي حَتَّى يَجِدَ المَاءَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِقَوْلِ عَمَّارٍ حِينَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَانَ يَكْفِيكَ» قَالَ: أَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَدَعْنَا مِنْ قَوْلِ عَمَّارٍ كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الآيَةِ؟ فَمَا دَرَى عَبْدُ اللَّهِ مَا يَقُولُ، فَقَالَ: إِنَّا لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَى أَحَدِهِمُ المَاءُ أَنْ يَدَعَهُ وَيَتَيَمَّمَ فَقُلْتُ لِشَقِيقٍ فَإِنَّمَا كَرِهَ عَبْدُ اللَّهِ لِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص ؓ کو ایک جاڑے کی رات میں غسل کی حاجت ہوئی۔ تو آپ نے تیمم کر لیا اور یہ آیت تلاوت کی “ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے۔ ” پھر اس کا ذکر نبی کریمﷺ کی خدمت میں ہوا تو آپ ﷺنے ان کی کوئی ملامت نہیں فرمائی۔آیت کریمہ پھر صحابہ کرام کے عمل سے اسلام میں بڑی بڑی آسانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ مگرصدافسوس کہ نام نہاد علماءوفقہاءنے دین کو ایک ہوابناکررکھ دیا ہے۔

346.

حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ  کے پاس تھا جب حضرت ابوموسیٰ نے حضرت ابن مسعود سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کی کیا رائے ہے، اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ  نے جواب دیا: جب تک پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: آپ حضرت عمار ؓ  کے اس قول کی کیا تاویل کریں گے جب نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ’’تمہیں (چہرے اور ہاتھوں کا مسح) کافی تھا‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عمر ؓ  کو حضرت عمار ؓ  کی اس روایت سے اطمینان نہیں ہوا تھا؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا: حضرت عمار ؓ  کی روایت کو جانے دیجیے۔ قرآن مجید میں جو آیت تیمم ہے اس کا کیا جواب ہے؟ اس پر حضرت ابن مسعود ؓ لاجواب ہو گئے، فرمانے لگے: اگر ہم نے لوگوں کو اس کے متعلق رعایت دے دی تو عجب نہیں کہ جب کسی کو پانی ٹھنڈا محسوس ہو گا تو وہ اسے استعمال کرنے کے بجائے تیمم کر لیا کرے گا۔ (راوی حدیث حضرت اعمش کہتے ہیں: ) میں نے (اپنے شیخ ابووائل) شقیق بن سلمہ سے کہا: حضرت ابن مسعود ؓ اسی وجہ سے تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے؟ ابووائل نے جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے۔