صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
47. باب : سورۃ مریم میں اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ( اس ) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ۔
باب : سورۃ مریم میں اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ( اس ) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And mention in the Book, the story of Maryam...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ایک پورب رخ مکان میں چلی گئی ۔ لفظ انتبذت نبذ سے نکلا ہے جیسے حصرت یونس کے قصے میں فرمایا نبذناہ یعنی ہم نے ان کو ڈال دیا ۔ شرقیا پورب رخ ( یعنی مسجد سے یا ان کے گھر سے پورب کی طرف ) فاجا ءھا کے معنی اس کو لاچار اور بے قرار کر دیا ۔ تساقط گرے گا ۔ قضیا دور ۔ فریابڑا یا برا ۔ نسیانا چیز ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا ہی کہا ۔ دوسروں نے کہا نسی کہتے ہیں حقیر چیز کو ( یہ سدی سے منقول ہے ) ابو وائل نے کہا کہ مریم یہ سمجھی کہ پرہیزگار وہی ہوتا ہے جو عقل مند ہوتا ہے ۔ جب انہوں نے کہا ( جبریل علیہ السّلام کو ایک جوان مرد کی شکل میں دیکھ کر ) اگر تو پرہیزگار ہے اللہ سے ڈرتا ہے ۔ وکیع نے اسرائیل سے نقل کیا ، انہوں نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے براء بن عازب سے سریا سریانی زبان میں چھوٹی نہر کو کہتے ہیں ۔
3460.
حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے (شب معراج) عیسیٰ ؑ، موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ کو دیکھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ سرخ رنگ، گھٹے بدن اور چوڑے سینے والے ہیں اور حضرت موسیٰ ؑ گندمی رنگ کے دراز قد سیدھے بالوں والے ہیں، گویا قبیلہ زط کے لوگوں میں سے ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ قبل ازیں حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کا وصف "مضطرب" بیان ہواہے،جس کے معنی ہیں خفیف اور ہلکا پھلکا جسم اور یہ وصف جسیم کے خلاف ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ دراصل جسامت کبھی موٹاپے کو ظاہر کرتی ہے اور کبھی طویل القامت ہونے کو،حضرت موسیٰ ؑ درازقد تھے ،لہذا ان پر جسیم کا اطلاق بھی درست ہے،اس لیے فرمایا:گویا وہ قبیلہ زط کے لوگوں میں سے ہیں کیونکہ ان لوگوں کا تعلق حبشہ سے ہے اور وہ لمبے قد والے ہوتے ہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ زط دراصل جٹ کا معرب ہے جنھیں جاٹ بھی کہاجاتا ہے۔ برصغیر میں یہ لوگ درازقد، جسامت اور طاقت میں مشہور ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3307
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3438
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3438
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3438
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
عنوان:44سے عنوان:48 تک تمام ملتے جلتے عنوان قائم کیے گئے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:آخری عنوان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعات کے لیے خاص ہے جبکہ باقی عناوین میں ان کی والدہ حضرت مریم علیہ السلام کے حالات بیان ہوئے ہیں۔(فتح الباری 6/584)لیکن ہمارا رجحان یہ ہے کہ پہلے عنوان میں حضرت مریم علیہ السلام کے حالات بتانا مقصود تھا جبکہ دوسرا عنوان بھی حالات مریم پر مشتمل ہے لیکن اس کی نوعیت پہلے سے مختلف ہے۔تیسرے اور چوتھے عنوان میں ولادت عیسیٰ علیہ السلام کاذکر ہے اور اس آخری عنوان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان ہوں گے۔واللہ اعلم۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق سورہ مریم کی آیت :15تا36 کا مطالعہ ضرور کریں۔
ایک پورب رخ مکان میں چلی گئی ۔ لفظ انتبذت نبذ سے نکلا ہے جیسے حصرت یونس کے قصے میں فرمایا نبذناہ یعنی ہم نے ان کو ڈال دیا ۔ شرقیا پورب رخ ( یعنی مسجد سے یا ان کے گھر سے پورب کی طرف ) فاجا ءھا کے معنی اس کو لاچار اور بے قرار کر دیا ۔ تساقط گرے گا ۔ قضیا دور ۔ فریابڑا یا برا ۔ نسیانا چیز ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا ہی کہا ۔ دوسروں نے کہا نسی کہتے ہیں حقیر چیز کو ( یہ سدی سے منقول ہے ) ابو وائل نے کہا کہ مریم یہ سمجھی کہ پرہیزگار وہی ہوتا ہے جو عقل مند ہوتا ہے ۔ جب انہوں نے کہا ( جبریل علیہ السّلام کو ایک جوان مرد کی شکل میں دیکھ کر ) اگر تو پرہیزگار ہے اللہ سے ڈرتا ہے ۔ وکیع نے اسرائیل سے نقل کیا ، انہوں نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے براء بن عازب سے سریا سریانی زبان میں چھوٹی نہر کو کہتے ہیں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے (شب معراج) عیسیٰ ؑ، موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ کو دیکھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ سرخ رنگ، گھٹے بدن اور چوڑے سینے والے ہیں اور حضرت موسیٰ ؑ گندمی رنگ کے دراز قد سیدھے بالوں والے ہیں، گویا قبیلہ زط کے لوگوں میں سے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ قبل ازیں حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کا وصف "مضطرب" بیان ہواہے،جس کے معنی ہیں خفیف اور ہلکا پھلکا جسم اور یہ وصف جسیم کے خلاف ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ دراصل جسامت کبھی موٹاپے کو ظاہر کرتی ہے اور کبھی طویل القامت ہونے کو،حضرت موسیٰ ؑ درازقد تھے ،لہذا ان پر جسیم کا اطلاق بھی درست ہے،اس لیے فرمایا:گویا وہ قبیلہ زط کے لوگوں میں سے ہیں کیونکہ ان لوگوں کا تعلق حبشہ سے ہے اور وہ لمبے قد والے ہوتے ہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ زط دراصل جٹ کا معرب ہے جنھیں جاٹ بھی کہاجاتا ہے۔ برصغیر میں یہ لوگ درازقد، جسامت اور طاقت میں مشہور ہے۔
ترجمۃ الباب:
فَنَبَذْنَا "ہم نے اسے پھینک دیا۔ "مریم صدیقہ کے متعلق اس لفظ کےمعنی ہیں: جب وہ گوشتہ نشین ہوگئیں شَرْقِيًّا کے معنی ہیں: وہ جانب جو طرف مشرق سے متصل تھی۔ فَأَجَاءَهَا یہ جئت سے باب افعال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے معنیالجائها یعنی اسے مجبور کردیا۔ تُسَاقِطْ کے معنی گرائے گی قَصِيًّا کے معنی بہت دوراور فَرِيًّا کے معنی بڑی بات۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا نَسِيَا کے معنی: "میں کوئی چیز نہ ہوتی۔ "ابن عباسؓ کے علاوہ دوسروں نے اس کے معنی"حقیر"کیے ہیں۔ابووائل نےکہا: مریم صدیقہ کو معلوم تھا کہ متقی انسان ہی عقلمند ہوتا ہے جبکہ انھوں نے فرشتے سے کہا تھا: "اگر تو متقی ہے"یعنی اگر تو عقلمند ہے۔ (کسی اجنبی عورت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔ )حضرت وکیع اپنے استاد اسرائیل سے، وہ ابو اسحاق سے اور وہ براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ سَرِيًّا سریانی زبان میں چھوٹی نہر کو کہتے ہیں (جبکہ عربی زبان میں سريا کے معنی"سردار" ہیں۔ )
حدیث ترجمہ:
ہم سےمحمد بن کثیر نےبیان کیا ،ہم کواسرائیل نےخبر دی ،کہا ہم کو عثمان بن مغیرہ نےخبر دی ،انہیں مجاہد نےاور ان سےحضرت عبداللہ بن عمر نےبیان کیاکہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا ،میں نے عیسیٰ ،موسیٰ اور ابراہیم ؑ کودیکھا۔ عیسی ؑ نہایت سرخ گھنگریالے بال والے اورچوڑے سینےوالے تھے اورموسیٰ ؑ گندم گوں، دراز قامت اورسیدھے بالوں والے تھےجیسے کوئی قبیلہ زط کا آدمی ہو۔
حدیث حاشیہ:
زط سوڈان کاایک قبیلہ یا یہود کا ،جہاں کےلوگ دبلے پتلے او رلمبے قد کےہوتے ہیں۔ زط سے جاٹ کالفظ بنا ہےجوہندوستان کی ایک مشہور قوم ہےجو ہندو اورمسلمان ہردو مذاہب سےتعلق رکھتے ہیں۔ روایت میں عن مجاہد عن ابن عمر ناقلین کاسہو ہےاصل میں صحیح یہ ہے عن مجاهد عن ابن عباس
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "I saw Moses (ؑ), Jesus and Abraham (on the night of my Ascension to the heavens). Jesus was of red complexion, curly hair and a broad chest. Moses (ؑ) was of brown complexion, straight hair and tall stature as if he was from the people of Az-Zutt."