تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ بہت محتاط اور پرہیز گار تھے۔ البتہ ہمارے اس پر آشوب دور میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ معمولی معمولی چیز میں بددیانتی کرتے ہیں اور لوگوں کے مال غصب کرنے میں فخر کرتے ہیں۔ 2۔ ہماری شریعت میں ایسے مال کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ اگر قرائن سے معلوم ہو جائے کہ وہ دور جاہلیت کا مدفون خزانہ ہے تو وہ رکازہے اور اس سے پانچواں حصہ بیت المال کو ادا کرنا ہوگا۔ اگر وہ مال دور اسلام کا ہے تو وہ لقطے کے حکم میں ہو گا اور اگر پتہ نہ چل سکے تو تمام مال بیت المال میں جمع کردیا جائے جو مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات میں صرف کیا جائے گا۔ 3۔ بعض حضرات کا موقف ہے کہ جو کوئی زمین کا مالک ہو جائے تو وہ عطا کردہ باطن کی ہر چیز کا مالک ہو جاتا ہے اور زمین کا مالک بنتے وقت اگر اسے زمین کے باطن میں کسی چیز کا علم نہ ہو تو یہ اس کی ملکیت کو ساقط نہیں کرتا۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ اگر کوئی زمین بیچے پھر اس میں سے خزانہ نکل آئے تو وہ بیچنے والے کا ہو گا جیسا کہ گھر بیچنے کی صورت میں اس کا مال واسباب بیچنے والے کا ہوتا ہے ہاں اگر خریدنے والا شرط کر لے تو دوسری بات ہے۔ واللہ أعلم۔