Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: What has been said about Bani Israel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3473.
حضرت خذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’تم سے پہلے ایک شخص تھا اس کے پاس فرشتہ آیا تاکہ اس کی روح قبض کرے تو اس سے پوچھا گیا: کیا تونے کوئی نیک عمل بھی کیا ہے؟ اس نے کہا: میں ہیں جانتا۔‘‘ اسے دوبارہ کہا گیا: ’’ذرا نظر تو ڈال۔‘‘ اس نے کہا: میں اس کے سوا کچھ نہیں جاناتاکہ میں دنیا میں لوگوں سے لین دین کرتا تھا اور قرض بھی دیتا تھا تو تقاضا کرتے وقت مال دار کو مہلت دے دیتا تھا اور تنگ دست کو معاف کر دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کے طفیل اسے جنت میں داخل کر دیا۔‘‘
تشریح:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’ایک تاجر لوگوں سے لین دین اور خرید وفروخت کیا کرتاتھا۔اگر کسی تنگ دست کودیکھتا تواپنے اہل کار عملے سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کرو اور اسے معاف کردوشاید اللہ تعالیٰ اس عمل کیوجہ سے درگزر کرے اور ہمیں معاف کردے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمایا۔‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2078) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اپنے سائے تلے جگہ دے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الزھد و الرقائق، حدیث:7512(3006)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3319
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3451
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3451
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3451
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت خذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’تم سے پہلے ایک شخص تھا اس کے پاس فرشتہ آیا تاکہ اس کی روح قبض کرے تو اس سے پوچھا گیا: کیا تونے کوئی نیک عمل بھی کیا ہے؟ اس نے کہا: میں ہیں جانتا۔‘‘ اسے دوبارہ کہا گیا: ’’ذرا نظر تو ڈال۔‘‘ اس نے کہا: میں اس کے سوا کچھ نہیں جاناتاکہ میں دنیا میں لوگوں سے لین دین کرتا تھا اور قرض بھی دیتا تھا تو تقاضا کرتے وقت مال دار کو مہلت دے دیتا تھا اور تنگ دست کو معاف کر دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کے طفیل اسے جنت میں داخل کر دیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’ایک تاجر لوگوں سے لین دین اور خرید وفروخت کیا کرتاتھا۔اگر کسی تنگ دست کودیکھتا تواپنے اہل کار عملے سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کرو اور اسے معاف کردوشاید اللہ تعالیٰ اس عمل کیوجہ سے درگزر کرے اور ہمیں معاف کردے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمایا۔‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2078) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اپنے سائے تلے جگہ دے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الزھد و الرقائق، حدیث:7512(3006)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت حذیفہ نےفرمایا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کویہ فرماتے سناتھاکہ پہلے زمانے میں ایک شخص کےپاس ملک الموت ان کی روح قبض کرنےآئے تو ان سےپوچھا گیا کوئی اپنی نیکی تمہیں یاد ہے؟ انہوں نےکہاکہ مجھے تویاد نہیں پڑتی، ان سے دوبارہ کہاگیا کہ یاد کرو! انہوں نےکہا کہ مجھے کوئی اپنی نیکی یادنہیں ، سوا اس کے کہ میں دنیا میں لوگوں کےساتھ خرید و فروخت کیاکرتا تھا اور لین دین کیا کرتا تھا، جولوگ خوشحال ہوتے انہیں تومیں (اپنا قرض وصول کرتے وقت) مہلت دیاکرتا اورتنگ ہاتھ والوں کومعاف کردیا کرتا تھا۔ اللہ تعالی نے انہیں اسی پر جنت میں داخل کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hudhaifa added, "I also heard him saying, 'From among the people preceding your generation, there was a man whom the angel of death visited to capture his soul. (So his soul was captured) and he was asked if he had done any good deed.' He replied, 'I don't remember any good deed.' He was asked to think it over. He said, 'I do not remember, except that I used to trade with the people in the world and I used to give a respite to the rich and forgive the poor (among my debtors). So Allah made him enter Paradise."