Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: What has been said about Bani Israel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3474.
حضرت خذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’ایک شخص مرنے لگا، جب وہ زندگی سےبالکل مایوس ہو گیا تو اس نے اپنے اہل خانہ کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میرے لیے بہت سی لکڑیاں جمع کر کے، ان میں آگ لگادینا اور مجھے جلا دینا۔ اور جب آگ میرے گوشت کو کھا جائے اور میری ہڈیوں تک پہنچ جائے اور وہ بھی جل کر کوئلہ ہو جائیں تو اس کوئلے کو پیس لینا۔ پھر کسی تیز ہوا والے دن اسے دریامیں بہادینا، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس ذرات کو جمع کر کے اس سے پوچھا: تونے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا : تیرےخوف سے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔‘‘ عقبہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے آپ کو یہ فرماتےبھی سناتھا: ’’وہ شخص کفن چور تھا۔‘‘
تشریح:
1۔ یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل سے متعلق ہے کیونکہ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک نے دوسرے سے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’بنی اسرائیل میں سے ایک شخص قبرستان سے کفن چوری کرتا تھا۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني:80/4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفن چور ہونے کی صراحت صرف ابومسعودعقبہ بن عمرو کا اضافہ نہیں بلکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسے بیان کرتی ہیں جیساکہ ابن حبان میں ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مرگیا جو کفن چور تھا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلیان:387/3) 2۔مردوں کو جلانا خلاف فطرت ہے۔ اور ایسےہی غلط تصورات کا نتیجہ ہے جو حدیثٖ میں بیان کیے گئے ہیں۔ انسان کی اصل مٹی ہے، لہذا مرنے کے بعد اسے مٹی ہی میں دفن کرنا فطرت کا تقاضا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3320
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3452
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3452
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3452
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت خذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’ایک شخص مرنے لگا، جب وہ زندگی سےبالکل مایوس ہو گیا تو اس نے اپنے اہل خانہ کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میرے لیے بہت سی لکڑیاں جمع کر کے، ان میں آگ لگادینا اور مجھے جلا دینا۔ اور جب آگ میرے گوشت کو کھا جائے اور میری ہڈیوں تک پہنچ جائے اور وہ بھی جل کر کوئلہ ہو جائیں تو اس کوئلے کو پیس لینا۔ پھر کسی تیز ہوا والے دن اسے دریامیں بہادینا، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس ذرات کو جمع کر کے اس سے پوچھا: تونے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا : تیرےخوف سے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔‘‘ عقبہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے آپ کو یہ فرماتےبھی سناتھا: ’’وہ شخص کفن چور تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل سے متعلق ہے کیونکہ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک نے دوسرے سے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’بنی اسرائیل میں سے ایک شخص قبرستان سے کفن چوری کرتا تھا۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني:80/4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفن چور ہونے کی صراحت صرف ابومسعودعقبہ بن عمرو کا اضافہ نہیں بلکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسے بیان کرتی ہیں جیساکہ ابن حبان میں ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مرگیا جو کفن چور تھا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلیان:387/3) 2۔مردوں کو جلانا خلاف فطرت ہے۔ اور ایسےہی غلط تصورات کا نتیجہ ہے جو حدیثٖ میں بیان کیے گئے ہیں۔ انسان کی اصل مٹی ہے، لہذا مرنے کے بعد اسے مٹی ہی میں دفن کرنا فطرت کا تقاضا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اورحضرت حذیفہ نےبیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتےہوئے سناکہ ایک شخص کی موت کا جب وقت آگیا اوروہ اپنی زندگی سےبالکل مایوس ہوگیا تو اس نےاپنے گھر والوں کووصیت کی کہ جب میری موت ہوجائے تومیرے لیےبہت ساری لکڑیاں جمع کرنا اوران میں آگ لگادینا۔ جب آگ میرے گوشت کو جلاچکے اور آخری ہڈی کوبھی جلادے توان جلی ہوئی ہڈیوں کوپیش ڈالنا اورکسی تندہوا والے دن کاانتظار کرنااور (ایسے کسی دن) میری راکھ کودریا میں بہا دینا۔اس کے گھر والوں نے ایسا ہی کیا ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کیا اور اس سےپوچھا ایسا تونے کیوں کروایا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ تیرے ہی خوف سے اسے اللہ! اللہ تعالی نےاسی وجہ سے اس کی مغفرت فرما دی۔ حضرت عقبہ بن عمرو نے کہا کہ میں نےآپ کویہ فرماتے سنا تھا کہ یہ شخص کفن چورتھا۔
حدیث حاشیہ:
شخص مذکوربنی اسرائیل سےتھا، باب سے یہی وجہ مناسبت ہے۔مردوں کوجلانا ایسے ہی غلط تصورات کانتیجہ ہےجو خلاف فطرت ہے۔ انسان کی اصل مٹی سےہے۔ لہذا مرنے کےبعد اسے مٹی میں دفن کرنا فطرت کاتقاضا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hudhaifa further said, "I also heard him saying, 'Once there was a man on his death-bed, who, losing every hope of surviving said to his family: When I die, gather for me a large heap of wood and make a fire (to burn me). When the fire eats my meat and reaches my bones, and when the bones burn, take and crush them into powder and wait for a windy day to throw it (i.e. the powder) over the sea. They did so, but Allah collected his particles and asked him: Why did you do so? He replied: For fear of You. So Allah forgave him." 'Uqba bin 'Amr said, "I heard him saying that the Israeli used to dig the grave of the dead (to steal their shrouds)."