Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: What has been said about Bani Israel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3475.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا : جب رسول اللہ ﷺ پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ اپنی چادر چہرہ مبارک پر بار بار ڈال لیتے، جب گھبراہٹ محسوس ہوتی تو اسے ہٹا دیتے تھے۔ آپ ﷺ نے اسی حالت میں فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء ؑ کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘ آپ اس بیان سے اپنی امت کو ان کے فعل شنیع (برے کام) سے بچانا چاہتے تھے۔
تشریح:
اس حدیث میں بنی اسرائیل یہود و نصاریٰ کا ایک کردار بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اپنے انبیاء ؑ اور صالحین کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:’’میری قبر پر اس طرح جمگھٹانہ کرنا اور اس پر جشن کا ساسماں نہ پیدا کرنا‘‘ جبکہ علامہ حالی نے کہا ہے۔ بنانا نہ تربت کو میری صنم تم۔ افسوس! نام نہاد مسلمانوں نے قبروں اور مزاروں کے ساتھ وہی کچھ کردکھایا ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا اور حدیث میں جس طرح خطرے کا اظہار کیا تھا اس کے مطابق عمل کرکے اپنی تباہی کا سامان پیدا کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3321
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3453
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3453
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3453
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا : جب رسول اللہ ﷺ پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ اپنی چادر چہرہ مبارک پر بار بار ڈال لیتے، جب گھبراہٹ محسوس ہوتی تو اسے ہٹا دیتے تھے۔ آپ ﷺ نے اسی حالت میں فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء ؑ کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘ آپ اس بیان سے اپنی امت کو ان کے فعل شنیع (برے کام) سے بچانا چاہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بنی اسرائیل یہود و نصاریٰ کا ایک کردار بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اپنے انبیاء ؑ اور صالحین کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:’’میری قبر پر اس طرح جمگھٹانہ کرنا اور اس پر جشن کا ساسماں نہ پیدا کرنا‘‘ جبکہ علامہ حالی نے کہا ہے۔ بنانا نہ تربت کو میری صنم تم۔ افسوس! نام نہاد مسلمانوں نے قبروں اور مزاروں کے ساتھ وہی کچھ کردکھایا ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا اور حدیث میں جس طرح خطرے کا اظہار کیا تھا اس کے مطابق عمل کرکے اپنی تباہی کا سامان پیدا کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے بشربن محمدنے بیان کیا، انہوں نےکہا کہ ہم کو عبداللہ نےخبر دی ،انہوں نےکہا کہ مجھ کومعمر اوریونس نےخبردی ،ان سےزہری نے بیان کیا، عبیداللہ بن عبداللہ نےخبردی کہ حضرت عائشہ ؓ اورحضرت ابن عباس ؓ نےبیان کیا، جب رسول اللہ ﷺپرنزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ اپنی چادر چہرہ مبارک پرباربار ڈال لیتے پھر جب شدت بڑھتی تواسے ہٹا دیتے تھے۔حضور ﷺ نےاسی حالت میں فرمایا تھا، اللہ تعالی کی لعنت ہویہود و نصاریٰ پرکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا۔ آنحضور ﷺ اس امت کےکیے سے ڈرانا چاہتےتھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA) and Ibn 'Abbas (RA): On his death-bed Allah's Apostle (ﷺ) put a sheet over his-face and when he felt hot, he would remove it from his face. When in that state (of putting and removing the sheet) he said, "May Allah's Curse be on the Jews and the Christians for they build places of worship at the graves of their prophets." (By that) he intended to warn (the Muslim) from what they (i.e. Jews and Christians) had done.