تشریح:
1۔اس حدیث میں ’’تم سے پہلے لوگوں‘‘ سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ 2۔چور کا ہاتھ کاٹنا شریعت موسوی میں بھی تھا۔ اب اگر کوئی اسے وحشیانہ سزا کہتا ہےتو وہ خود وحشی ہے اور جو کوئی مسلمان ہو کر اس سزا کو خلاف تہذیب کہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الحدود میں آئے گی۔ 3۔جس مخزومیہ عورت نے چوری کی تھی اس کا نام فاطمہ بنت اسود تھا۔ اس نے فتح مکہ کے وقت کسی کا زیور چرا لیا تھا رسول اللہ ﷺ نے بطور سزا اس کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔ 4۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب معاملہ حاکم وقت کے پاس پہنچ جائے تو حدود کے متعلق سفارش کرنا یا سفارش کرانا دونوں حرام ہیں۔ اگر ملزم عادی مجرم نہ ہواور نہ کبھی فساد انگیزی ہی میں ملوث ہوا ہو تو حاکم وقت کے پاس جانے سے پہلے معاملہ نمٹا یا جاسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔