تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے جس اختلاف سے ڈرایا ہے اس سے مراد وہ اختلاف ہے جو انسان کو کفر و شرک یا بدعت تک پہنچا دے مثلاً: نفس قرآن میں اختلاف کرنا البتہ قرآءت کے سلسلے میں آدمی کو اختیار ہے کہ جسے چاہے پڑھے۔ اسی طرح اظہار حق کے لیے جو مناظرات ہیں وہ ممنوع نہیں نیز فروعی اور قیاسی مسائل میں لڑنا جھگڑنا اور بال کی کھال اتارنا کوئی مستحن کام نہیں۔ اسی طرح قیاسی مسائل میں کسی ایک امام کے اجتہادات تسلیم کرنے پر کسی کو مجبور کرنا بھی درست نہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں اختلافات کو برقرار رکھنے کے لیے ایک حدیث پیش کی جاتی ہے۔’’میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے۔‘‘ یہ خود ساختہ اور بناوٹی حدیث ہے۔ محدثین کے معیار صحت پر یہ پوری نہیں اترتی۔