تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی ایسی چیز کادعویٰ کرنا حرام ہے جو اس کی نہ ہو، خواہ اس کا تعلق مال ومتاع سے ہو یا علم وفضل سے یا حسب ونسب سے، چنانچہ بعض لوگ اپنی قوم کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں وہ بھی اس وعید کی زد میں آتے ہیں جیسا کہ کچھ لوگ سادات کی طرف اپنی نسبت کرلیتے ہیں تاکہ عوام کی نگاہوں میں محترم ہوں۔ وہ اس حدیث کے مصداق ہیں۔ 2۔ اس کفر سے مراد کفرانِ نعمت ہے یا اس کامطلب یہ ہے کہ جو غیر کی نسبت کرنے کو اپنے لیے حلال سمجھتاہے وہ واقعی کافر ہے یا مذکورہ کلمہ ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر ہے۔ اگروہ توبہ کرلے تو یہ گناہ ساقط ہو جائے گا۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:جب ثابت ہوا کہ اہل یمن حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد ہیں تو ان کاکسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہی مطلب معلوم ہوتاہے۔ (فتح الباري:660/6)