صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
1. باب: اس بارے میں کہ شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
1. بَابٌ: كَيْفَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ فِي الإِسْرَاءِ؟
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
1. Chapter: How As-Salat (the Prayer) was prescribed on the night of Al-Isra (miraculous night journey) of the Prophet (pbuh) to Jerusalem (and then to the heavens)
باب: اس بارے میں کہ شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: How As-Salat (the Prayer) was prescribed on the night of Al-Isra (miraculous night journey) of the Prophet (pbuh) to Jerusalem (and then to the heavens))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم سے ابوسفیان بن حرب نے بیان کیا حدیث ہرقل کے سلسلہ میں کہا کہ وہ یعنی نبی کریمﷺ ہمیں نماز پڑھنے، سچائی اختیار کرنے اور حرام سے بچے رہنے کا حکم دیتے ہیں۔
355.
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب نماز فرض کی تو حضر و سفر میں (ہر نماز کی) دو دو رکعتیں فرض کی تھیں، پھر نماز سفر میں اپنی اصلی حالت میں قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا۔
تشریح:
1۔ کیفیت عددی کی دوقسمیں ہیں: ایک تونمازوں کی تعداد، دوسرے نماز میں رکعات کی تعداد۔ پہلی قسم کے متعلق وضاحت تو حدیث اسرا میں موجود ہے کہ پہلے پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں، پھر تخفیف کرتے کرتے پانچ نمازوں کو برقرار رکھا گیا۔ اس حدیث میں نماز کی فرضیت کے وقت تعداد رکعات کے متعلق بتایاگیا ہے کہ جب نماز فرض ہوئی تھی تو ہرنماز کی دو دورکعات تھیں، پھرحضر کی نماز میں دو، دورکعات کا اضافہ کردیاگیا۔ البتہ ابن اسحاق ؒ کی بیان کردہ روایت میں مغرب کی نماز کا استثنا ہے۔ گویا صلاۃ مغرب شروع ہی سے تین رکعاتھیں، اس کی دورکعات نہیں تھیں۔ (مسند احمد:273/6) ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ ابتداء ميں ہرنماز کی دو، دورکعات فرض ہوئی تھیں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کی تو چاررکعات فرض ہوگئیں اور سفر کی نماز پہلی حالت پر چھوڑدی گئی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3935) محدث ابن خزیمہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کی تفصیلی روایت بایں الفاظ نقل کی ہے: ابتداء سفروحضر میں ہرنماز کی دو، دورکعات فرض ہوئی تھیں، پھر رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اور آپ کو سکون واطمینان نصیب ہواتو صلاۃ حضرمیں دو، دورکعت کا اضافہ کردیاگیا اور صلاۃ فجر کو طول قراءت کی وجہ سے یونہی رہنے دیا گیا، اسی طرح مغرب چونکہ وترالنہار ہے۔ اس لیے اس میں بھی اضافہ نہیں کیاگیا۔ (صحیح ابن خذیمة:157/1، حدیث:305) ایک روایت میں ہے کہ نماز اولاً تو دو، دورکعت ہی فرض ہوئی تھی، پھر سفر کے لیے تو باقی اسی طرح رہی، البتہ حضر کی نماز کو پورا کردیا گیا۔ راوی حدیث امام زہری ؒ نے اپنے شیخ حضرت عروہ بن زبیر سے سوال کیا کہ پھر حضرت عائشہ ؓ دوران سفر میں نماز پوری کیوں پڑھتی تھیں؟انھوں نے جواب دیا کہ وہ بھی حضرت عثمان ؓ کی طرح تاویل کرتی تھیں۔ (صحیح البخاري، تقصیر الصلاة، حدیث:1090) حضرت عروہ ؒ کے جواب سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے تاویلاً مقیم بن کر اتمام فرمایا، نہ کہ مسافر رہتے ہوئے اتمام کا عمل فرمایا، لہذا ان کے عمل اورروایت میں کوئی تضاد نہیں۔ دوران سفر میں قصر واجب ہے یا عزیمت یا رخصت؟ اس کے متعلق کتاب التقصیر الصلاة میں بحث ہوگی۔ امام بخاری ؒ کا اس مقام پر حدیث عائشہ ؓ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ نماز کی ابتدائی فرضیت کی نوعیت مقدار رکعات کے لحاظ سے سفروحضر دونوں حالتوں میں دو، دورکعات ہی تھی، اس کے بعد حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اورسفر کی نماز دو، دورکعات ہی باقی رہی۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگرمباحث امام بخاری ؒ نے آئندہ بیان کیے ہیں، لہذا ہم بھی وہاں اپنی گزارشات پیش کریں گے۔ واضح رہے کہ تعداد رکعات کے متعلق حضرت عائشہؓ نے اجتہاد سے کام نہیں لیا، کیونکہ اس میں قیاس کا کوئی دخل نہیں، بلکہ یہ بات یاتو انھیں رسول اللہ ﷺ سے معلوم ہوئی یا کسی اور صحابی سے، اس لیے حافظ ابن حجر ؒ نے وضاحت فرمادی کہ یہ روایت معناً مرفوع ہے۔ (فتح الباري:602/1) 2۔ حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ ایک روایت کےخلاف ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ کی زبان حق ترجمان سے حضر میں نماز کی چار، چار رکعات سفر میں دو، دورکعات اورخوف میں ایک رکعت فرض کی گئی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے یہ تعارض اس طرح ر فع کیا کہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں نمازوں کو پوراکردیا گیا، اس کے بعد جب سفر کی مشکلات درپیش ہوئیں تو مسافر کے لیے دیگرمراعات کے ساتھ ایک رعایت نماز کے متعلق بھی دے دی گئی کہ اسے قصر سے پڑھا جاسکتا ہے، کیونکہ ہجرت کے چوتھے سال آیت قصر نازل ہوئی ہے۔ اس توجیہ کے پیش نظر حدیث عائشہ ﷺ کا یہ مطلب ہے کہ انجام اور نتیجے کے اعتبار سے تخفیف کے بعد سفر کی نماز چاررکعت کے بجائے دورکعت ہوگئی۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ فرضیت کے وقت ہی سے اس کی دورکعات تھیں جنھیں برقرار رکھا گیا۔ (فتح الباري:602/1) لیکن اس توجیہ پر دل مطمئن نہیں، کیونکہ یہ تاویل حضرت عائشہ ؓ کے صریح الفاظ کے خلاف ہے۔ پھر اس توجیہ میں ایک ایسا قیاس کیا گیا ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں، وہ یہ کہ آیت قصہ ہجرت کے چوتھے سال نازل ہوئی، لہذا ان چار سال کی مدت میں نماز سفر بھی چاررکعات ہی ہوں گی۔ اس قیاس پر کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت واضح ہے کہ اضافہ حضر کی نماز میں ہوا، سفر کی نماز میں اضافہ نہیں ہوا، بلکہ اسے جوں کا توں برقراررکھا گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہجرت کے بعد حضر کی نمازیں چار چار رکعات مقرر کردی گئیں اورسفر میں دو رکعت ہی رہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
348
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
350
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
350
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
350
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم سے ابوسفیان بن حرب نے بیان کیا حدیث ہرقل کے سلسلہ میں کہا کہ وہ یعنی نبی کریمﷺ ہمیں نماز پڑھنے، سچائی اختیار کرنے اور حرام سے بچے رہنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب نماز فرض کی تو حضر و سفر میں (ہر نماز کی) دو دو رکعتیں فرض کی تھیں، پھر نماز سفر میں اپنی اصلی حالت میں قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ کیفیت عددی کی دوقسمیں ہیں: ایک تونمازوں کی تعداد، دوسرے نماز میں رکعات کی تعداد۔ پہلی قسم کے متعلق وضاحت تو حدیث اسرا میں موجود ہے کہ پہلے پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں، پھر تخفیف کرتے کرتے پانچ نمازوں کو برقرار رکھا گیا۔ اس حدیث میں نماز کی فرضیت کے وقت تعداد رکعات کے متعلق بتایاگیا ہے کہ جب نماز فرض ہوئی تھی تو ہرنماز کی دو دورکعات تھیں، پھرحضر کی نماز میں دو، دورکعات کا اضافہ کردیاگیا۔ البتہ ابن اسحاق ؒ کی بیان کردہ روایت میں مغرب کی نماز کا استثنا ہے۔ گویا صلاۃ مغرب شروع ہی سے تین رکعاتھیں، اس کی دورکعات نہیں تھیں۔ (مسند احمد:273/6) ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ ابتداء ميں ہرنماز کی دو، دورکعات فرض ہوئی تھیں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کی تو چاررکعات فرض ہوگئیں اور سفر کی نماز پہلی حالت پر چھوڑدی گئی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3935) محدث ابن خزیمہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کی تفصیلی روایت بایں الفاظ نقل کی ہے: ابتداء سفروحضر میں ہرنماز کی دو، دورکعات فرض ہوئی تھیں، پھر رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اور آپ کو سکون واطمینان نصیب ہواتو صلاۃ حضرمیں دو، دورکعت کا اضافہ کردیاگیا اور صلاۃ فجر کو طول قراءت کی وجہ سے یونہی رہنے دیا گیا، اسی طرح مغرب چونکہ وترالنہار ہے۔ اس لیے اس میں بھی اضافہ نہیں کیاگیا۔ (صحیح ابن خذیمة:157/1، حدیث:305) ایک روایت میں ہے کہ نماز اولاً تو دو، دورکعت ہی فرض ہوئی تھی، پھر سفر کے لیے تو باقی اسی طرح رہی، البتہ حضر کی نماز کو پورا کردیا گیا۔ راوی حدیث امام زہری ؒ نے اپنے شیخ حضرت عروہ بن زبیر سے سوال کیا کہ پھر حضرت عائشہ ؓ دوران سفر میں نماز پوری کیوں پڑھتی تھیں؟انھوں نے جواب دیا کہ وہ بھی حضرت عثمان ؓ کی طرح تاویل کرتی تھیں۔ (صحیح البخاري، تقصیر الصلاة، حدیث:1090) حضرت عروہ ؒ کے جواب سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے تاویلاً مقیم بن کر اتمام فرمایا، نہ کہ مسافر رہتے ہوئے اتمام کا عمل فرمایا، لہذا ان کے عمل اورروایت میں کوئی تضاد نہیں۔ دوران سفر میں قصر واجب ہے یا عزیمت یا رخصت؟ اس کے متعلق کتاب التقصیر الصلاة میں بحث ہوگی۔ امام بخاری ؒ کا اس مقام پر حدیث عائشہ ؓ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ نماز کی ابتدائی فرضیت کی نوعیت مقدار رکعات کے لحاظ سے سفروحضر دونوں حالتوں میں دو، دورکعات ہی تھی، اس کے بعد حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اورسفر کی نماز دو، دورکعات ہی باقی رہی۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگرمباحث امام بخاری ؒ نے آئندہ بیان کیے ہیں، لہذا ہم بھی وہاں اپنی گزارشات پیش کریں گے۔ واضح رہے کہ تعداد رکعات کے متعلق حضرت عائشہؓ نے اجتہاد سے کام نہیں لیا، کیونکہ اس میں قیاس کا کوئی دخل نہیں، بلکہ یہ بات یاتو انھیں رسول اللہ ﷺ سے معلوم ہوئی یا کسی اور صحابی سے، اس لیے حافظ ابن حجر ؒ نے وضاحت فرمادی کہ یہ روایت معناً مرفوع ہے۔ (فتح الباري:602/1) 2۔ حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ ایک روایت کےخلاف ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ کی زبان حق ترجمان سے حضر میں نماز کی چار، چار رکعات سفر میں دو، دورکعات اورخوف میں ایک رکعت فرض کی گئی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے یہ تعارض اس طرح ر فع کیا کہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں نمازوں کو پوراکردیا گیا، اس کے بعد جب سفر کی مشکلات درپیش ہوئیں تو مسافر کے لیے دیگرمراعات کے ساتھ ایک رعایت نماز کے متعلق بھی دے دی گئی کہ اسے قصر سے پڑھا جاسکتا ہے، کیونکہ ہجرت کے چوتھے سال آیت قصر نازل ہوئی ہے۔ اس توجیہ کے پیش نظر حدیث عائشہ ﷺ کا یہ مطلب ہے کہ انجام اور نتیجے کے اعتبار سے تخفیف کے بعد سفر کی نماز چاررکعت کے بجائے دورکعت ہوگئی۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ فرضیت کے وقت ہی سے اس کی دورکعات تھیں جنھیں برقرار رکھا گیا۔ (فتح الباري:602/1) لیکن اس توجیہ پر دل مطمئن نہیں، کیونکہ یہ تاویل حضرت عائشہ ؓ کے صریح الفاظ کے خلاف ہے۔ پھر اس توجیہ میں ایک ایسا قیاس کیا گیا ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں، وہ یہ کہ آیت قصہ ہجرت کے چوتھے سال نازل ہوئی، لہذا ان چار سال کی مدت میں نماز سفر بھی چاررکعات ہی ہوں گی۔ اس قیاس پر کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت واضح ہے کہ اضافہ حضر کی نماز میں ہوا، سفر کی نماز میں اضافہ نہیں ہوا، بلکہ اسے جوں کا توں برقراررکھا گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہجرت کے بعد حضر کی نمازیں چار چار رکعات مقرر کردی گئیں اورسفر میں دو رکعت ہی رہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباسؓ نے کہا: مجھ سے حضرت ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے ہرقل کی حدیث ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ وہ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز، صدقہ اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی امام مالک نے صالح بن کیسان سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز میں دو دو رکعت فرض کی تھی۔ سفر میں بھی اور اقامت کی حالت میں بھی۔ پھر سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھی گئی اور حالت اقامت کی نمازوں میں زیادتی کر دی گئی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The mother of believers: Allah enjoined the prayer when He enjoined it, it was two Rakat only (in every prayer) both when in residence or on journey. Then the prayers offered on journey remained the same, but (the Rakat of) the prayers for non-travellers were increased.