تشریح:
1۔حافظ ابن حجر ؒنے لکھا ہے کہ اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت سخاوت کو بیان کرنا مقصود ہے۔(فتح الباري:701/6)ہمارارجحان یہ ہے کہ اس حدیث سے ایک اشکال کا ازالہ مقصود ہے اور وہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے طبعی طور پر خوشبوآتی تھی اگرچہ آپ نے خوشبو نہ بھی استعمال کی ہوتی ،تو اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو کیوں استعمال کرتے تھے؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ روایت لاکربتانا چاہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی فرشتوں سے ملاقات ہوتی رہتی تھی،خاص طور پر فرشتہ وحی حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ ملاقات کا سلسلہ بکثرت جاری رہتا تھا۔اس کے علاوہ آپ کی مبارک مجلس میں لوگ کثرت سے حاضر رہتے تھے۔اس ماحول کو پاکیزہ اور معطر رکھنے کے لیے آپ طبعی خوشبو کے علاوہ خود ساختہ خوشبو بھی بکثرت استعمال کرتے تھے۔واللہ أعلم۔