باب: اس بیان میں کہ کپڑے پہن کر نماز پڑھنا واجب ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: It is obligatory to wear clothes while offering As-Salat (the prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورہ اعراف میں ) اللہ عزوجل کا حکم ہے کہ تم کپڑے پہنا کرو ہر نماز کے وقت اور جو ایک ہی کپڑے بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھے ( اس نے بھی فرض ادا کر لیا ) اور سلمہ بن اکوع سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ( اگر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھے تو ) اپنے کپڑے کو ٹانک لے اگرچہ کانٹے ہی سے ٹانکنا پڑے، اس کی سند میں گفتگو ہے اور وہ شخص جو اسی کپڑے سے نماز پڑھتا ہے جسے پہن کر وہ جماع کرتا ہے ( تو نماز درست ہے ) جب تک وہ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھے اور نبی کریم ﷺنے حکم دیا تھا کہ کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔تشریح : آیت شریفہ خذوا زینتکم الخ میں مسجد سے مراد نماز ہے۔ بقول حضرت عبداللہ بن عباس ایک عورت خانہ کعبہ کا ننگی ہوکر طواف کررہی تھی کہ یہ آیت شریفہ ناز ل ہوئی۔ مشرکین مکہ بھی عموماً طواف کعبہ ننگے ہوکر کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس حرکت سے سختی کے ساتھ روکا۔ اور نماز کے لیے مساجد میں آتے وقت کپڑے پہننے کا حکم فرمایا خذوا زینتکم میں زینت سے ستر پوشی ہی مراد ہے جیسا کہ مشہور مفسر قرآن مجاہد نے اس بارے میں امت کا اجماع واتفاق نقل کیا ہے۔ لفظ زینت میں بڑی وسعت ہے جس کا مفہوم یہ کہ مسجد خدا کا دربارہے اس میں ہرممکن وجائز زیب و زینت کے ساتھ اس نیت سے داخل ہونا کہ میں اللہ احکم الحاکمین بادشاہوں کے بادشاہ رب العالمین کے دربار میں داخل ہورہاہوں، عین آداب دربار خداوندی میں داخل ہے۔ یہ بات علیحدہ ہے کہ اگرصرف ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کرلی جائے بشرطیکہ اس سے ستر پوشی کامل طور پر حاصل ہوتو یہ بھی جائز ودرست ہے۔ ایسے ایک کپڑے کو ٹانک لینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دونوں کنارے ملاکراسے اٹکائے۔ اگرگھنڈی تکمہ نہ ہو توکانٹے یاپن سے اٹکالے تاکہ کپڑا سامنے سے کھلنے نہ پائے اور شرمگاہ چھپی رہے۔ سلمہ بن اکوع کی روایت ابوداؤد اور ابن خزیمہ اور ابن حبان میں ہے۔ اس کی سند میں اضطراب ہے، اسی لیے حضرت امام اسے اپنی صحیح میں نہیں لائے ومن صلی فی الثوب الذی الخ ایک طویل حدیث میں وارد ہے جسے ابوداؤد اور نسائی نے نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس کپڑے کو پہن کر صحبت کرتے اگر اس میں کچھ پلیدی نہ پاتے تو اسی میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ اور حدیث ان لا یطوف فی البیت عریان کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اس سے مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جب ننگے ہوکر طواف کرنا منع ہوا تونماز بطریقِ اولیٰ منع ہے۔
356.
حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کے موقع پر حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو باہر لائیں تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ جو عورتیں ایام والی ہوں وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو چادر میسر نہیں ہوتی؟ آپ نے فرمایا؛ ’’اس کے ساتھ جانے والی اس کو اپنی چادر میں لے لے۔‘‘ عبداللہ بن رجاء نے کہا: ہمیں عمران نے یہ حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہم سے محمد بن سیرین نے یہ حدیث بیان کی اور محمد بن سیرین نے کہا: ہم سے ام عطیہ ؓ نے یہ حدیث ذکر کی، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی۔
تشریح:
1۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو عید گاہ میں جانے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے حتی کہ جو عورتیں اپنی طبعی مجبوری کی وجہ سے نماز پڑھنے سے معذور ہیں وہ بھی عید گاہ میں حاضر ہوں، لیکن پردے کااہتمام ضروری ہے۔ اگرکسی کے پاس چادر نہیں تو وہ اپنی کسی بہن سے مستعار لے لے یابڑی چادر میں کسی دوسری عورت کے ساتھ چلی جائے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عید گاہ میں جاناضروری بھی ہے لیکن بے پردہ جانے کی بھی اجازت نہیں۔ جب راستے میں جاتے ہوئے اس قدر اہتمام ہے تو نماز کپڑے کے بغیر کس طرح درست ہوگی، یعنی جب نماز میں حاضری کے لیے کپڑا ضروری ہے تونماز میں بدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ہوگی۔ وھوالمقصود۔ امام بخاری ؒ کااستدلال اس طور پر ہوسکتاہے کہ جب حائضہ کے لیے کپڑے اور چادر کا اس قدر التزام ہے، حالانکہ اس نے نماز نہیں پڑھنی ہے توطاہرہ جس نے نماز پڑھنی ہے اس کے لیے کپڑے کا اہتمام بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔ استدلال اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ شریعت کی نظر میں سوال کرنا اچھی عادت نہیں، لیکن نماز پڑھنے کے لیے کپڑوں کے سوال کو جائز قراردیا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نماز کے لیے کپڑے کا ہونا ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے روایت کے آخرمیں ایک تعلیق بیان کی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں محدث ابن سیرین ؒ نے صراحت کی ہے کہ انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو سناہے۔ امام بخای ؓ نے اس تعلیق سے ان حضرات کی تردید کی ہے جن کے خیال کے مطابق محدث ابن سیرین ؒ نے حضرت ام عطیہ سے سماع نہیں کیا، بلکہ اس کی بہن حضرت حفصہ ؓ سے حدیث سنی ہے۔ امام بخاری کی پیش کردہ پہلی سند میں محمد بن سیرین ؒ نے اس روایت کو"عن" کے صیغے سے بیان کیاتھا۔ شبہ تھا کہ شاید براہ راست انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو نہیں سنا۔ اس تعلیق سے اس شبے کو دورفرمادیا۔ (فتح الباري:605/1) 3۔ حفصہ بنت سیرین ؒ کہتی ہیں کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عید گاہ جانے سے منع کرتی تھیں۔ مجھے کسی نے حضرت ام عطیہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عورتوں کو عیدین کے موقع پر عید گاہ جانے کی تاکید کرتے تھے۔ جب ہماری ملاقات ام عطیہؓ سے ہوئی تو میں نے براہ راست ان سے سوال کیا تو انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔ میں نے سوال کیا: آیا حائضہ عورت بھی عید گاہ جائے؟ انھوں نے فرمایا: وہ حج کے موقع پر عرفات اوردیگر مقامات مقدسہ میں جاتی ہیں تو عید گاہ جانے میں کیوں ممانعت ہو؟ (صحیح البخاری، الحیض، حدیث: 324) 4۔ امام بخاریؒ آئندہ 15 ابواب میں سترعورۃ کا مسئلہ بیان فرمائیں گے جن میں مختلف احوال وظروف کے اعتبار سے نماز میں کپڑوں کے استعمال کے متعلق وضاحت کی جائے گی۔ کپڑے کم ہوں یا تنگ ہوں تو کیا کیاجائے؟ مرد اورعورت کے لیے الگ الگ احکام کیاہیں؟ اس باب میں جن احادیث کی طرف امام بخاری ؒ نے اشارہ کیا ہے، وہ ان کی شرائط صحت کے مطابق نہ تھیں، اس لیے انھیں موصولاً نہیں لائے، صرف حدیث ام عطیہ ؓ کو بطور استیناس اس مقام پر بیان فرمایا ہے۔ اس حدیث میں ایام والی عورتوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہوں۔ اس سے مراد جماعت نماز میں شرکت کرنا نہیں، بلکہ صرف عید گاہ میں حاضر ہوناہے۔ اگرچہ شہود کا استعمال شرکت جماعت اور اقتدار کے لیے بھی حدیث میں استعمال ہواہے، تاہم اس مقام پر یہ معنی نہیں ہیں، کیونکہ ایام والی عورتیں نماز پڑھنے سے معذور ہیں۔ 5۔ ایک عورت کا دوسری سے چادرمستعار لینا یا ایک بڑی چادر میں دوعورتوں کا اکٹھے جانابعض حضرات کے نزدیک یہ اہتمام صرف راستے میں جاتے وقت راہ گیروں سے پردے کی وجہ سے ہے، اس کاسترعورۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ انسان سے شرم اس درجہ ضروری کہ عید گاہ میں بے پردہ سے جانا ممنوع ٹھہرا، لیکن دوران نماز میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر سترعورۃ کا اہتمام نہ کرنا، یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے حیا زیادہ کرنی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
349
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
351
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
351
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
351
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
نماز کی فرضیت ثابت کرنے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ شرائط نماز بیان کرنا چاہتے ہیں۔سب سے پہلے سترعورۃ کو شروع کیا کیونکہ ستر عورۃ نماز اورغیر نماز دونوں میں ضروری ہے۔نماز میں سترعورۃ کے واجب ہونے کی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:(خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ)"ہر مسجد میں حاضری کے وقت اپنا لباس زیب تن کرو۔"جب مسجد میں حاضری کے لیے لباس کا پہننا ضروری ہے تونماز کے لیے بدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ثابت ہوگئی۔آیت کریمہ میں زینت سے مراد اعلیٰ قسم کا لباس نہیں بلکہ یہ مقصد ہے کہ اس حصہ جسم کو ڈھانپ کر آؤ جس کا کھلا رکھنامعیوب ہے۔چونکہ لباس والا جسم ننگے جسم کے مقابلے میں مزین نظر آتا ہے،اس لیے لباس کو زینت کہاگیا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سترعورۃ کی اہمیت بایں طور بیان کرتے ہیں کہ اگربرہنگی دور کرنے کے لیے ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھ لی جائے تو بھی جائز ہے۔اس میں کوئی پابندی نہیں کہ اس کپڑے کو بطور تہ بند استعمال کیا جائے یا اسے بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھ لی جائے۔ایک کپڑے میں نماز کی دلیل حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے جس میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں شکاری ہوں،اس لیے ضرورت سےزیادہ کپڑے ساتھ نہیں رکھتا صرف ایک کُرتہ پہن لیتا ہوں،کیا میں اس کُرتے میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟آپ نے فرمایا کہ نماز پڑھی جاسکتی ہے بشرط یہ کہ چاک گریبان بند کرلیا جائے،خواہ کانٹے ہی سے کیوں نہ ہو۔کانٹا لگانے کا مطلب بھی سترعورۃ ہے،یعنی پردے والے حصہ جسم کو چھپانا۔جب نمازی کا حصہ مستور خود اپنے لیے چھپانا ضروری ہے تو غیر سے اس کا چھپانا بدرجہ اولیٰ ضروری ہوا۔اس روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف التاریخ الکبیر میں اور امام ابوداؤد ،محدث ابن خذیمہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے باسند روایت کیاہے لیکن اس کی سند پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اعتراض کیا ہے جس کی تفصیل فتح الباری میں ہے۔جس کا خلاصہ ہے کہ روایت مجموعی حیثیت سے قابل استدلال ہے۔( فتح الباری 604/1۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث سلمہ بن اکوع بیان کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آیت کریمہ میں اخذ زینت سے مراد لباس پہننا ہے،زیبائش وآرائش مراد نہیں۔( فتح الباری 604/1۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سترعورۃ کے لیے لباس میں مزید وسعت پیدا کرتے ہیں کہ اس میں آزادی ہے ،خواہ وہ کپڑا نیا ہویا مستعمل ،پھر مستعمل بھی عام حالات میں ہو یابوقت مجامعت بدن پر رہا ہو،صرف اس کا پاک ہوناضروری ہے۔وہ نجاست آلود نہ ہو۔اس اسعت کے ذریعے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا:آیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کپڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے جسے بحالت جماع پہن رکھاہو؟انھوں نے جواب دیا ہاں،جب اس میں نجاست وغیرہ نہ دیکھتے۔( سنن ابی داؤد الطھارۃ حدیث 366 وسنن النسائی الطھارۃ حدیث 295۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سترعورۃ کے وجوب پر ایک اور دلیل ذکر فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریاں ہوکر بیت اللہ کا طواف کرنے کے متعلق حکم امتناعی جاری کیا ہے۔( صحیح البخاری المغازی حدیث 4363۔) وجہ استدلال یہ ہے کہ برہنگی کی حالت میں طواف سے منع فرمایا گیا ہے،حالانکہ طواف کی اہمیت نماز سے زیادہ نہیں اور طواف کے لیے اس قسم کی شرائط وآداب بھی نہیں ہیں جو نماز کے لیے ہیں۔اس کے باوجود حکم ہے کہ بیت اللہ کا طواف برہنہ ہوکرنہ کیا جائے تو نماز میں بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا کہ برہنگی کی حالت میں اسے ادا نہ کیاجائے۔واضح رہے کہ سترعورۃ کے متعلق مالکیہ کا موقف بہت عجیب ہے۔غیر نماز میں تو ستر عورۃ کے متعلق جمہور کے ساتھ ہیں کہ یہ فرض ہے لیکن نماز میں سترعورۃ ان کے نزدیک سنن کے درجے میں ہے جبکہ جمہور کے نزدیک نماز میں سترعورۃ ضروری اور شرط ہے۔ممکن ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جمہور کی موافقت کرتے ہوئے مالکیہ کی تردید فرمارہے ہوں۔اس اختلاف کا ثمرہ اس صورت میں ظاہر ہوگا کہ اگر کوئی شخص بند کمرے میں تنہا سترعورۃ کے بغیر نماز پڑھے تو جمہور ائمہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ اس نے ایک فرض کو ترک کردیا ہے جبکہ مالکیہ کے نزدیک نماز ہوجائےگی۔صرف سنت کے ترک کی وجہ سے ایسا کرنا مکروہ ضرور ہے لیکن متاخرین مالکیہ نے جمہور کی موافقت کی ہے اورسترعورۃ کو نماز میں بھی لازم قراردیا ہے۔واللہ اعلم۔
سورہ اعراف میں ) اللہ عزوجل کا حکم ہے کہ تم کپڑے پہنا کرو ہر نماز کے وقت اور جو ایک ہی کپڑے بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھے ( اس نے بھی فرض ادا کر لیا ) اور سلمہ بن اکوع سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ( اگر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھے تو ) اپنے کپڑے کو ٹانک لے اگرچہ کانٹے ہی سے ٹانکنا پڑے، اس کی سند میں گفتگو ہے اور وہ شخص جو اسی کپڑے سے نماز پڑھتا ہے جسے پہن کر وہ جماع کرتا ہے ( تو نماز درست ہے ) جب تک وہ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھے اور نبی کریم ﷺنے حکم دیا تھا کہ کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔تشریح : آیت شریفہ خذوا زینتکم الخ میں مسجد سے مراد نماز ہے۔ بقول حضرت عبداللہ بن عباس ایک عورت خانہ کعبہ کا ننگی ہوکر طواف کررہی تھی کہ یہ آیت شریفہ ناز ل ہوئی۔ مشرکین مکہ بھی عموماً طواف کعبہ ننگے ہوکر کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس حرکت سے سختی کے ساتھ روکا۔ اور نماز کے لیے مساجد میں آتے وقت کپڑے پہننے کا حکم فرمایا خذوا زینتکم میں زینت سے ستر پوشی ہی مراد ہے جیسا کہ مشہور مفسر قرآن مجاہد نے اس بارے میں امت کا اجماع واتفاق نقل کیا ہے۔ لفظ زینت میں بڑی وسعت ہے جس کا مفہوم یہ کہ مسجد خدا کا دربارہے اس میں ہرممکن وجائز زیب و زینت کے ساتھ اس نیت سے داخل ہونا کہ میں اللہ احکم الحاکمین بادشاہوں کے بادشاہ رب العالمین کے دربار میں داخل ہورہاہوں، عین آداب دربار خداوندی میں داخل ہے۔ یہ بات علیحدہ ہے کہ اگرصرف ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کرلی جائے بشرطیکہ اس سے ستر پوشی کامل طور پر حاصل ہوتو یہ بھی جائز ودرست ہے۔ ایسے ایک کپڑے کو ٹانک لینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دونوں کنارے ملاکراسے اٹکائے۔ اگرگھنڈی تکمہ نہ ہو توکانٹے یاپن سے اٹکالے تاکہ کپڑا سامنے سے کھلنے نہ پائے اور شرمگاہ چھپی رہے۔ سلمہ بن اکوع کی روایت ابوداؤد اور ابن خزیمہ اور ابن حبان میں ہے۔ اس کی سند میں اضطراب ہے، اسی لیے حضرت امام اسے اپنی صحیح میں نہیں لائے ومن صلی فی الثوب الذی الخ ایک طویل حدیث میں وارد ہے جسے ابوداؤد اور نسائی نے نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس کپڑے کو پہن کر صحبت کرتے اگر اس میں کچھ پلیدی نہ پاتے تو اسی میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ اور حدیث ان لا یطوف فی البیت عریان کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اس سے مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جب ننگے ہوکر طواف کرنا منع ہوا تونماز بطریقِ اولیٰ منع ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کے موقع پر حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو باہر لائیں تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ جو عورتیں ایام والی ہوں وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو چادر میسر نہیں ہوتی؟ آپ نے فرمایا؛ ’’اس کے ساتھ جانے والی اس کو اپنی چادر میں لے لے۔‘‘ عبداللہ بن رجاء نے کہا: ہمیں عمران نے یہ حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہم سے محمد بن سیرین نے یہ حدیث بیان کی اور محمد بن سیرین نے کہا: ہم سے ام عطیہ ؓ نے یہ حدیث ذکر کی، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو عید گاہ میں جانے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے حتی کہ جو عورتیں اپنی طبعی مجبوری کی وجہ سے نماز پڑھنے سے معذور ہیں وہ بھی عید گاہ میں حاضر ہوں، لیکن پردے کااہتمام ضروری ہے۔ اگرکسی کے پاس چادر نہیں تو وہ اپنی کسی بہن سے مستعار لے لے یابڑی چادر میں کسی دوسری عورت کے ساتھ چلی جائے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عید گاہ میں جاناضروری بھی ہے لیکن بے پردہ جانے کی بھی اجازت نہیں۔ جب راستے میں جاتے ہوئے اس قدر اہتمام ہے تو نماز کپڑے کے بغیر کس طرح درست ہوگی، یعنی جب نماز میں حاضری کے لیے کپڑا ضروری ہے تونماز میں بدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ہوگی۔ وھوالمقصود۔ امام بخاری ؒ کااستدلال اس طور پر ہوسکتاہے کہ جب حائضہ کے لیے کپڑے اور چادر کا اس قدر التزام ہے، حالانکہ اس نے نماز نہیں پڑھنی ہے توطاہرہ جس نے نماز پڑھنی ہے اس کے لیے کپڑے کا اہتمام بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔ استدلال اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ شریعت کی نظر میں سوال کرنا اچھی عادت نہیں، لیکن نماز پڑھنے کے لیے کپڑوں کے سوال کو جائز قراردیا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نماز کے لیے کپڑے کا ہونا ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے روایت کے آخرمیں ایک تعلیق بیان کی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں محدث ابن سیرین ؒ نے صراحت کی ہے کہ انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو سناہے۔ امام بخای ؓ نے اس تعلیق سے ان حضرات کی تردید کی ہے جن کے خیال کے مطابق محدث ابن سیرین ؒ نے حضرت ام عطیہ سے سماع نہیں کیا، بلکہ اس کی بہن حضرت حفصہ ؓ سے حدیث سنی ہے۔ امام بخاری کی پیش کردہ پہلی سند میں محمد بن سیرین ؒ نے اس روایت کو"عن" کے صیغے سے بیان کیاتھا۔ شبہ تھا کہ شاید براہ راست انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو نہیں سنا۔ اس تعلیق سے اس شبے کو دورفرمادیا۔ (فتح الباري:605/1) 3۔ حفصہ بنت سیرین ؒ کہتی ہیں کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عید گاہ جانے سے منع کرتی تھیں۔ مجھے کسی نے حضرت ام عطیہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عورتوں کو عیدین کے موقع پر عید گاہ جانے کی تاکید کرتے تھے۔ جب ہماری ملاقات ام عطیہؓ سے ہوئی تو میں نے براہ راست ان سے سوال کیا تو انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔ میں نے سوال کیا: آیا حائضہ عورت بھی عید گاہ جائے؟ انھوں نے فرمایا: وہ حج کے موقع پر عرفات اوردیگر مقامات مقدسہ میں جاتی ہیں تو عید گاہ جانے میں کیوں ممانعت ہو؟ (صحیح البخاری، الحیض، حدیث: 324) 4۔ امام بخاریؒ آئندہ 15 ابواب میں سترعورۃ کا مسئلہ بیان فرمائیں گے جن میں مختلف احوال وظروف کے اعتبار سے نماز میں کپڑوں کے استعمال کے متعلق وضاحت کی جائے گی۔ کپڑے کم ہوں یا تنگ ہوں تو کیا کیاجائے؟ مرد اورعورت کے لیے الگ الگ احکام کیاہیں؟ اس باب میں جن احادیث کی طرف امام بخاری ؒ نے اشارہ کیا ہے، وہ ان کی شرائط صحت کے مطابق نہ تھیں، اس لیے انھیں موصولاً نہیں لائے، صرف حدیث ام عطیہ ؓ کو بطور استیناس اس مقام پر بیان فرمایا ہے۔ اس حدیث میں ایام والی عورتوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہوں۔ اس سے مراد جماعت نماز میں شرکت کرنا نہیں، بلکہ صرف عید گاہ میں حاضر ہوناہے۔ اگرچہ شہود کا استعمال شرکت جماعت اور اقتدار کے لیے بھی حدیث میں استعمال ہواہے، تاہم اس مقام پر یہ معنی نہیں ہیں، کیونکہ ایام والی عورتیں نماز پڑھنے سے معذور ہیں۔ 5۔ ایک عورت کا دوسری سے چادرمستعار لینا یا ایک بڑی چادر میں دوعورتوں کا اکٹھے جانابعض حضرات کے نزدیک یہ اہتمام صرف راستے میں جاتے وقت راہ گیروں سے پردے کی وجہ سے ہے، اس کاسترعورۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ انسان سے شرم اس درجہ ضروری کہ عید گاہ میں بے پردہ سے جانا ممنوع ٹھہرا، لیکن دوران نماز میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر سترعورۃ کا اہتمام نہ کرنا، یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے حیا زیادہ کرنی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ہر نماز کے وقت اپنی آرائش، یعنی لباس پہن لیا کرو۔" اور جو شخص ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر نماز پڑھ لے (تو یہ ردتس ہے)۔ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے منقول ہے کہ انہیں نبی ﷺنے قمیص کے گریبان کو بند کرنے کے متعلق کہا تھا اگرچہ کانٹے ہی سے کیوں نہ ہو، لیکن اس حدیث کی سند میں کلام ہے۔ اور اگر کسی نے ایسے کپڑے پہن کر نماز پڑھی جن میں جماع کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ ان میں نجاست نہ دیکھے۔ نبی ﷺ نے حکم دیا تھا کہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ محمد سے، وہ ام عطیہ ؓ سے، انھوں نے فرمایا کہ ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو بھی باہر لے جائیں۔ تا کہ وہ مسلمانوں کے اجتماع اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو سکیں۔ البتہ حائضہ عورتوں کو نماز پڑھنے کی جگہ سے دور رکھیں۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس ( پردہ کرنے کے لیے ) چادر نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔ اور عبداللہ بن رجاء نے کہا ہم سے عمران قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے، کہا ہم سے ام عطیہ ؓ نے، میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا اور یہی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب حدیث کے الفاظ: لتلبسها صاحبتها من جلبابها ( جس عورت کے پاس کپڑا نہ ہو اس کی ساتھ والی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر ہی کا کوئی حصہ اسے بھی اڈھا دے ) سے نکلتا ہے۔ مقصد یہ کہ مساجد میں جاتے وقت، عیدگاہ میں حاضری کے وقت، نماز پڑھتے وقت اتنا کپڑا ضرور ہونا چاہیے جس سے مرد وعورت اپنی اپنی حیثیت میں ستر پوشی کرسکیں۔ اس حدیث سے بھی عورتوں کا عیدگاہ جانا ثابت ہوا۔ امام بخاری ؓ نے سند میں عبداللہ بن رجاء کو لاکر اس شخص کا رد کیا جس نے کہا کہ محمد بن سیرین ؒ نے یہ حدیث ام عطیہ ؓ سے نہیں سنی، بلکہ اپنی بہن حفصہ سے، انھوں نے ام عطیہ سے۔ اسے طبرانی نے معجم کبیر میں وصل کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um 'Atiya (RA): We were ordered to bring out our menstruating women and veiled women in the religious gatherings and invocation of Muslims on the two 'Id festivals. These menstruating women were to keep away from their Musalla. A woman asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ' What about one who does not have a veil?" He said, "Let her share the veil of her companion."