Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To tie Izar (dress worn below the waist) at one's back while offering Salat (prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوحازم سلمہ بن دینار نے سہل بن سعد سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے نبی ﷺ کے ساتھ اپنی تہبند کندھوں پر باندھ کر نماز پڑھی۔
357.
حضرت محمد بن منکدر ؓ سے روایت ہے، حضرت جابر ؓ نے صرف ایک تہ بند میں نماز پڑھی جس کی گرہ انھوں نے اپنی گردن پر لگائی تھی، حالانکہ ان کے دوسرے کپڑے ایک تپائی پر تکھے ہوئے تھے۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا: آپ ایک ازار میں نماز پڑھتے ہیں؟ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: میں نے ایسا صرف اس لیے کیا ہے تاکہ مجھے تجھ جیسا احمق دیکھ لے اور نبی ﷺ کے عہد مبارک میں کس کے پاس دو کپڑے ہوتے تھے؟
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ صحت نماز کا مدار کپڑوں کی گنتی پرنہیں بلکہ سترہ عورۃ پر ہے، خواہ وہ کسی طریقے سے حاصل ہو۔ پیش کردہ روایت میں حضرت جابر ؓ نے ایک ہی چادر میں نماز پڑھی اورسترعورۃ کے لیے انھوں نے چادر کے دونوں کناروں کو گردن پر باندھ لیا۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اگرکسی کے پاس ایک سے زائد کپڑے ہوں اس کے باوجود وہ صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھتاہے تو ایساکرناجائز ہے، اگرچہ بہتر ہے کہ وہ پورا لباس پہن کر نماز پڑھے، چنانچہ پہلی روایت میں حضرت جابر ؓ کا عمل بیان ہواہے۔ دوسری سے پتہ چلا کہ حضرت جابر ؓ کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا اس لیے تھا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھاتھا تاہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اس کے خلاف روایت منقول ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا:کوئی آدمی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے اگرچہ وہ زمین وآسمان جتنا وسیع ہو۔ محدث ابن بطال ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ کی طرف اس طرح کا امتناعی حکم منسوب کیاہے۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہوا کہ ایک کپڑے میں نماز ادا کی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ ساتر ہو، اگرچہ دوسرے کپڑے اس کے پاس موجود ہوں۔ (فتح الباري:607/1) 2۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت جابرؓ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق روایت کرنے والے حضرت عبادہ بن ولید تھے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت (360) سے معلوم ہوتاہے کہ سعید بن حارث نے اس کے متعلق سوال کیاتھا، جبکہ صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت (370) میں ہے، ابن منکدر کہتے ہیں: ہم نے کہا:اے ابوعبداللہ ! یعنی ہم نے اس کے متعلق سوا ل کیا۔ ممکن ہے کہ متعدد دفعہ مختلف لوگوں نے اس کے متعلق سوال کیے ہوں۔ ابن منکدر کے جواب میں حضرت جابرؓ نے فرمایا:میں نے چاہا کہ آپ جیسے جاہل مجھے اس طرح نماز پڑھتا دیکھ لیں۔ حضرت جابر ؓ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاتحقیق اکابر علماء پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی نظر میں ایسا کرنا حماقت اور جہالت ہے۔ حضرت جابر ؓ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے قصداً ایساکیا ہے، اس میں تمہارے اس اعتراض کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ تمھیں سوچناچاہیے تھاکہ واقف شریعت صحابی عمل کررہا ہے اور اس عمل میں عقل وقیاس کو بھی کوئی دخل نہیں، اس لیے یہ عمل خود جواز کی دلیل ہے، لیکن تم اس عمل سے مسئلہ مستنبط کرنے کی بجائے اعتراض کرنے لگے جو حماقت اور جہالت کی علامت ہے۔ (فتح الباری:606/1) 3۔ (مشخب) کے معنی ہمارے یہاں کی متد اول تپائی نہیں، بلکہ اس سے مراد تین لکڑیاں کھڑی کرکے ان کے اوپر والے سرے جوڑ دیے جائیں اور نیچے کے سرے پھیلا دیے جائیں، جیسے سپاہی پریڈ کے میدان میں تین بندوقیں جوڑ کر کھڑی کردیتے ہیں، اس وقت لوگ لکڑی کے اس اسٹینڈ پر غسل وغیرہ کے وقت اپنے کپڑے رکھ دیتے تھے، نیز پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے اس پر مشکیزے بھی لٹکایا کرتے تھے، چرواہے بھی اسے استعمال کرتے تھے، یعنی اس پراپنا ڈول اور مشکیزہ لٹکا دیتے تھے۔ (فتح الباری:606/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
350
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
352
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
352
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
352
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
اس باب کا مقصد یہ ہے کہ نماز شروع کرنے والا اپنی چادر کو بدن سےلپیٹ کر گدی سے باندھ لے کیونکہ اگرایسا نہیں کیا جائے گا تو رکوع یا سجدے کے وقت ستر کھلنے کا خطرہ ہے۔گرہ لگانے کے عمل سے کشف ستر کا احتمال باقی نہیں رہے گا۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سہل بن سعد سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جسے آئندہ موصولاً(رقم:362 میں) بیان کریں گے۔مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو شانوں پر گرہ لگاتے دیکھا لیکن منع نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ یہ عمل جائز ہے ۔واضح رہے کہ مسجد میں رہنے والے اصحاب صفہ اپنے تہ بند پر کی گردن پر گرہ لگالیتے تھے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ میں سے سترآدمیوں کودیکھا،ان میں سے کسی ایک کے پاس پوری چادر نہ تھی ،صرف تہہ بند ہوتا یا اوڑھنے کی چادر سے جسے وہ اپنی گردنوں میں باندھ لیتے اور اسے اپنے ہاتھ سے اس خطرے کے پیش نظر سمیٹ لیتے کہ مباداشرم گاہ کھل جائے۔( صحیح البخاری الصلاۃ حدیث 442۔)
اور ابوحازم سلمہ بن دینار نے سہل بن سعد سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے نبی ﷺ کے ساتھ اپنی تہبند کندھوں پر باندھ کر نماز پڑھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت محمد بن منکدر ؓ سے روایت ہے، حضرت جابر ؓ نے صرف ایک تہ بند میں نماز پڑھی جس کی گرہ انھوں نے اپنی گردن پر لگائی تھی، حالانکہ ان کے دوسرے کپڑے ایک تپائی پر تکھے ہوئے تھے۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا: آپ ایک ازار میں نماز پڑھتے ہیں؟ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: میں نے ایسا صرف اس لیے کیا ہے تاکہ مجھے تجھ جیسا احمق دیکھ لے اور نبی ﷺ کے عہد مبارک میں کس کے پاس دو کپڑے ہوتے تھے؟
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ صحت نماز کا مدار کپڑوں کی گنتی پرنہیں بلکہ سترہ عورۃ پر ہے، خواہ وہ کسی طریقے سے حاصل ہو۔ پیش کردہ روایت میں حضرت جابر ؓ نے ایک ہی چادر میں نماز پڑھی اورسترعورۃ کے لیے انھوں نے چادر کے دونوں کناروں کو گردن پر باندھ لیا۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اگرکسی کے پاس ایک سے زائد کپڑے ہوں اس کے باوجود وہ صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھتاہے تو ایساکرناجائز ہے، اگرچہ بہتر ہے کہ وہ پورا لباس پہن کر نماز پڑھے، چنانچہ پہلی روایت میں حضرت جابر ؓ کا عمل بیان ہواہے۔ دوسری سے پتہ چلا کہ حضرت جابر ؓ کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا اس لیے تھا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھاتھا تاہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اس کے خلاف روایت منقول ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا:کوئی آدمی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے اگرچہ وہ زمین وآسمان جتنا وسیع ہو۔ محدث ابن بطال ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ کی طرف اس طرح کا امتناعی حکم منسوب کیاہے۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہوا کہ ایک کپڑے میں نماز ادا کی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ ساتر ہو، اگرچہ دوسرے کپڑے اس کے پاس موجود ہوں۔ (فتح الباري:607/1) 2۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت جابرؓ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق روایت کرنے والے حضرت عبادہ بن ولید تھے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت (360) سے معلوم ہوتاہے کہ سعید بن حارث نے اس کے متعلق سوال کیاتھا، جبکہ صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت (370) میں ہے، ابن منکدر کہتے ہیں: ہم نے کہا:اے ابوعبداللہ ! یعنی ہم نے اس کے متعلق سوا ل کیا۔ ممکن ہے کہ متعدد دفعہ مختلف لوگوں نے اس کے متعلق سوال کیے ہوں۔ ابن منکدر کے جواب میں حضرت جابرؓ نے فرمایا:میں نے چاہا کہ آپ جیسے جاہل مجھے اس طرح نماز پڑھتا دیکھ لیں۔ حضرت جابر ؓ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاتحقیق اکابر علماء پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی نظر میں ایسا کرنا حماقت اور جہالت ہے۔ حضرت جابر ؓ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے قصداً ایساکیا ہے، اس میں تمہارے اس اعتراض کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ تمھیں سوچناچاہیے تھاکہ واقف شریعت صحابی عمل کررہا ہے اور اس عمل میں عقل وقیاس کو بھی کوئی دخل نہیں، اس لیے یہ عمل خود جواز کی دلیل ہے، لیکن تم اس عمل سے مسئلہ مستنبط کرنے کی بجائے اعتراض کرنے لگے جو حماقت اور جہالت کی علامت ہے۔ (فتح الباری:606/1) 3۔ (مشخب) کے معنی ہمارے یہاں کی متد اول تپائی نہیں، بلکہ اس سے مراد تین لکڑیاں کھڑی کرکے ان کے اوپر والے سرے جوڑ دیے جائیں اور نیچے کے سرے پھیلا دیے جائیں، جیسے سپاہی پریڈ کے میدان میں تین بندوقیں جوڑ کر کھڑی کردیتے ہیں، اس وقت لوگ لکڑی کے اس اسٹینڈ پر غسل وغیرہ کے وقت اپنے کپڑے رکھ دیتے تھے، نیز پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے اس پر مشکیزے بھی لٹکایا کرتے تھے، چرواہے بھی اسے استعمال کرتے تھے، یعنی اس پراپنا ڈول اور مشکیزہ لٹکا دیتے تھے۔ (فتح الباری:606/1)
ترجمۃ الباب:
سہل بن سعد سے روایت ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے نبی ﷺ کے ساتھ اپنے شانوں پر تہ بند کی گرہ لگا کر نماز پڑھی تھی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے واقد بن محمد نے محمد بن منکدر کے حوالہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے تہبند باندھ کر نماز پڑھی۔ جسے انھوں نے سر تک باندھ رکھا تھا اور آپ کے کپڑے کھونٹی پر ٹنگے ہوئے تھے۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپ ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ تجھ جیسا کوئی احمق مجھے دیکھے۔ بھلا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں دو کپڑے بھی کس کے پاس تھے؟
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Al-Munkadir (RA): Once Jabir prayed with his Izar tied to his back while his clothes were lying beside him on a wooden peg. Somebody asked him, "Do you offer your prayer in a single Izar?" He replied, "I did so to show it to a fool like you. Had anyone of us two garments in the life-time of the Prophet (ﷺ)?"