تشریح:
1۔ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی کئی ایک پیش گوئیوں پر مشتمل ہے جن کی ہم کتاب الفتن میں وضاحت کریں گے۔2۔اس حدیث میں کسی نئی جماعت بنانے کا قطعی طور پر کوئی اشارہ نہیں ہے جیسا کہ لوگوں نے ایک جماعت المسلمین بنا ڈالی ہے بلکہ اس میں مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے اور ان کے امام کی اطاعت کرنے کا حکم ہے۔ اگر کوئی اس جماعت سے علیحدہ رہے گا تو وہ شیطان کے نرغے میں آجائے گا نیز اس حدیث میں جماعت المسلمین سے مراد اہل اسلام کی حکومت اور امام سے مراد ان کا خلیفہ ہے چنانچہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں۔’’اگر ان دنوں کوئی خلیفہ زمین میں موجود ہوتو اسے لازم پکڑنا اگرچہ وہ تجھے مار مار کر تیرا جسم نڈھال کردے اور تیرا مال بھی چھین لے اور اگر کوئی خلیفہ نہ ہو تو زمین میں بھاگ کھڑا ہونا اور کسی درخت کو پناہ گاہ بنا کروہیں موت سے ہمکنار ہوجانا۔‘‘ (مسند أحمد:403/5)اس حدیث میں خلیفہ نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین بنانے کاحکم نہیں بلکہ وہاں سے بھاگ جانے کا حکم ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے۔ ’’اگر حکومت نہ ہو تو معاملے کی کیا صورت ہو گی۔؟‘‘ شارح بخاری حافظ ابن حجر ؒ اس کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایک خلیفہ پر اجماع سے پہلے اختلاف کی حالت مین ایک مسلمان کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔(فتح الباري:35/13)اس میں کسی جماعت المسلمین کا ذکر نہیں جس کے پاس کسی قسم کا اختیار نہ ہو بلکہ نئی جماعت خود اپنے تحفظات کے لیے حکومت وقت کی محتاج ہے کیونکہ انھوں نے درخواست دے کر خود رجسٹرڈ کرایا ہے۔ واللہ المستعان۔