تشریح:
1۔حضرت ثابت بن قیس ؓطبعی طور پر بلند آواز سے گفتگو کرتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾’’اے ایمان والو!تم اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے عمل برباد ہو جائیں۔ اور تمھیں شعور بھی نہ ہو۔‘‘ (الحجرات:2/49)اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت ثابت ؓ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آنے سے رک گئے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔2۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو علامات نبوت میں بیان کیا ہے دراصل ان کی غرض ایک دوسری حدیث کے ملانے سے پوری ہوتی ہے کہ حضرت ثابت جنگ یمامہ میں کفار سے لڑنے کے لیے تیاری کر رہے تھے اپنے بدن کو تیل کی مالش کی اور میدان کا رزار میں کود پڑے اور جام شہادت نوش فرمایا۔(صحیح البخاري، الجهاد، حدیث:2845)گویا اس حدیث کا مصداق جنگ یمامہ میں ظاہر ہوا۔ شاید امام بخاری ؒ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو لیکن ہمارا رجحان یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے ایک طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو فرمایا تھا کہ کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ تم نیک بخت بن کر زندگی گزارو۔ پھر شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤ چنانچہ وہ جنگ یمامہ میں شہید ہو کر مذکورہ حدیث کا مصداق بنے۔3۔حضرت انس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہم انھیں دنیامیں چلتا پھر تا جنتی خیال کرتے تھے۔(فتح الباري:759/6)4۔یہ حدیث نبوت کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا اسی طرح ہوا۔واللہ أعلم۔