قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3615. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَبُو الْحَسَنِ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ جَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى أَبِي فِي مَنْزِلِهِ فَاشْتَرَى مِنْهُ رَحْلًا فَقَالَ لِعَازِبٍ ابْعَثْ ابْنَكَ يَحْمِلْهُ مَعِي قَالَ فَحَمَلْتُهُ مَعَهُ وَخَرَجَ أَبِي يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ فَقَالَ لَهُ أَبِي يَا أَبَا بَكْرٍ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا حِينَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا وَمِنْ الْغَدِ حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلَا الطَّرِيقُ لَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهُ وَسَوَّيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانًا بِيَدِي يَنَامُ عَلَيْهِ وَبَسَطْتُ فِيهِ فَرْوَةً وَقُلْتُ نَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوْلَكَ فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي أَرَدْنَا فَقُلْتُ لَهُ لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ قُلْتُ أَفِي غَنَمِكَ لَبَنٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ أَفَتَحْلُبُ قَالَ نَعَمْ فَأَخَذَ شَاةً فَقُلْتُ انْفُضْ الضَّرْعَ مِنْ التُّرَابِ وَالشَّعَرِ وَالْقَذَى قَالَ فَرَأَيْتُ الْبَرَاءَ يَضْرِبُ إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى يَنْفُضُ فَحَلَبَ فِي قَعْبٍ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ وَمَعِي إِدَاوَةٌ حَمَلْتُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْتَوِي مِنْهَا يَشْرَبُ وَيَتَوَضَّأُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ فَوَافَقْتُهُ حِينَ اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ مِنْ الْمَاءِ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ فَقُلْتُ اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ ثُمَّ قَالَ أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَارْتَحَلْنَا بَعْدَمَا مَالَتْ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ فَقُلْتُ أُتِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَدَعَا عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَطَمَتْ بِهِ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا أُرَى فِي جَلَدٍ مِنْ الْأَرْضِ شَكَّ زُهَيْرٌ فَقَالَ إِنِّي أُرَاكُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَجَا فَجَعَلَ لَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا قَالَ قَدْ كَفَيْتُكُمْ مَا هُنَا فَلَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ قَالَ وَوَفَى لَنَا

مترجم:

3615.

حضرت براء بن عازب  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر  ؓ میرے والد کے گھرتشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا، پھر انھوں نے(میرےوالد محترم)حضرت عازب  سے فرمایا کہ اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیجو کہ وہ اسے اٹھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ہمراہ کجاوہ اٹھایا۔ جب میرے ابو ان سے اس کی قیمت لینے گئے تو ان سے میرے والد نے کہا: ابو بکر  ؓ  !مجھے بتائیں، جب آپ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہجرت کر کےگئے تھےتو تمھارے ساتھ کیا بیتی تھی؟حضرت ابو بکر   نے فرمایا: ہم رات بھر چلتے رہے، اگلے دن بھی سفر جاری رکھا حتی کہ دوپہر ہو گئی۔ راستہ بالکل سنسان تھا۔ ادھر سے کوئی آدمی گزرتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس دوران میں ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی جس کے نیچے دھوپ نہ تھی بلکہ سایہ تھا، لہٰذا ہم نے وہاں پڑاؤکیا۔ میں نے خود نبی ﷺ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جگہ ہموار کی، وہاں پوستین بچھائی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ یہاں آرام فرمائیں، میں آپ کے آس پاس کی نگرانی کرتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ سو گئے اور میں آس پاس کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے نکلا۔ اتفاق سے مجھے ایک چرواہا ملا۔ وہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کو اسی چٹان کے سائےمیں لانا چاہتا تھا جس کے نیچے ہم نے پڑاؤکیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: برخوردار!تو کس قبیلے سے ہے؟اس نے کہا: میں مدینہ طیبہ یا مکہ مکرمہ کے ایک شخص کا غلام ہوں۔ میں نے اس سے کہا: کیا تیری بکریوں سے دودھ مل سکتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے پوچھا: کیا تو ہمارے لیے دودھ نکال سکتا ہے؟اس نے کہا: ہاں، چنانچہ وہ ایک بکری پکڑلایا تو میں نے اس سے کہا کہ اس کےتھنوں کو مٹی، بالوں اور دوسری الائشوں سے صاف کرو۔ ۔ ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا، انھوں نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارکر تھن جھاڑنے کی صورت بیان کی۔ ۔ ۔ بہر حال اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں دودھ نکالا۔ میرےپاس ایک چھاگل تھی جو میں مکہ سے نبی ﷺ کے لیے لایا تھا۔ آپ اس سے پانی پیتے اور وضو بھی کرتے تھے۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ کو بیدار کرنا مناسب خیال نہ کیا لیکن اتفاق یہ ہوا کہ جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے۔ میں نے دودھ میں کچھ پانی ڈالا تو وہ نیچے تک ٹھنڈا ہوگیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اسے نوش فرمائیں، چنانچہ آپ نے وہ دودھ پیا جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اب چلنے کا وقت ہو چکا ہے، چنانچہ ہم سورج ڈھلنےکے بعد وہاں سے چل پڑے۔ دوسری طرف سراقہ بن مالک ہمارا پیچھا کرتا ہوا وہاں آپہنچا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کوئی ہمارے پیچھے آرہا ہے آپ نے فرمایا: ’’فکر مت کرو، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے اس کے لیے بدعا کی تو اس کا گھوڑااس سمیت پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ ۔ ۔ زہیر راوی نے کہا: سخت زمین میں دھنس گیا۔ ۔ ۔ سراقہ نے کہا: میراخیال ہے کہ آپ دونوں نے میرے لیے بددعا کی ہے۔ اب آپ دونوں میرے لیے دعا کیجیے۔ اللہ کی قسم!آپ سے میرا وعدہ ہے کہ میں آپ کو تلاش کرنے والوں کو واپس کردوں گا، چنانچہ نبی ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی تو اس نے(زمین سے)نجات حاصل کی۔ پھر وہ جس سے ملتااسے کہتا کہ میں تلاش کر چکا ہوں، ادھرکوئی نہیں، وہ ہر ملنے والے کو یہ کہہ کر واپس لوٹا دیتا تھا۔ حضرت ابو بکر  ؓ  نے فرمایا: اس نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا اسے پوری طرح نبھایا۔