باب: اس بیان میں کہ صرف ایک کپڑے کو بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا جائز و درست ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayers) with a single garment wrapped round the body)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
امام زہری نے اپنی حدیث میں کہا کہ ملتحف متوشح کو کہتے ہیں۔ جو اپنی چادر کے ایک حصے کو دوسرے کاندھے پر اور دوسرے حصے کو پہلے کاندھے پر ڈال لے اور وہ دونوں کاندھوں کو ( چادر سے ) ڈھانک لیتا ہے۔ ام ہانی نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک چادر اوڑھی اور اس کے دونوں کناروں کو اس سے مخالف طرف کے کاندھے پر ڈالا۔
362.
حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے اس وقت آپ ﷺ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی صاجزادی حضرت فاطمہ ؓ نے پردہ کر رکھا تھا۔ فرماتی ہیں: میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے دریافت فرمایا: ’’یہ کون عورت ہے؟‘‘ میں نے خود عرض کیا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’ام ہانی کو خوش آمدید ہو۔‘‘ پھر جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ایک ہی کپڑا اپنے گرد لپیٹ کر آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مادر زاد، یعنی حضرت علی ؓ ایک آدمی، یعنی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حالانکہ میں نے اسے پناہ دی رکھی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔‘‘ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں: یہ چاشت کی نماز تھی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے چوتھی روایت پیش کی ہے جو حضرت ام ہانی ؓ سے مروی ہے۔ اس میں صراحت کے ساتھ انھوں نے اپنا مشاہدہ بیان کیاہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے صرف ایک کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔ امام بخاری ؒ کا مقصد حدیث کے اسی ٹکڑے سے متعلق ہے۔ جمہور اہل علم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین ؒ عظام کا یہی مذہب ہے کہ ایک کپڑے میں نماز درست ہے اگرچہ زائد کپڑے موجود ہوں۔ البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ ، طاوس ؒ ، امام نخعی ؒ ، عبداللہ بن وہب اور محمد بن جریرطبری ؒ سے یہ منقول ہے کہ نمازی کے پاس ایک سے زائد کپڑے موجود ہوں تو ایک کپڑے میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ جمہور کی طرف سے دو کپڑوں میں نماز پڑھنے کی تاکید کو استحباب وافضلیت پر محمول کیاگیا ہے، لہذا اس اختلاف کی چنداں اہمیت نہیں۔ (عمدة القاري:263/3) 2۔ نماز کے بعد ام ہانی ؓ عنہا نے رسول اللہ کی خدمت میں ایک شکایت پیش کی کہ میں نے ابن ہبیرہ کو پناہ دی ہے، جبکہ میرے بھائی حضرت علی ؓ اسے قتل کرنےکا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ میری پناہ کو تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں۔ ممکن ہے کہ حضرت علی ؓ نے یہ سوچا ہوکہ عورت کو سیاسی معاملات میں بصیرت نہیں ہوتی، اس لیے ضروری نہیں کہ اس کی پناہ کو تسلیم کیاجائے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کی پناہ کو برقرار رکھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی کافر کو اپنی پناہ میں لے لے، خواہ یہ مسلمان کسی طبقے کا فرد ہو، مرد ہو یاعورت تو اس کی پناہ تمام مسلمانوں کی طرف سے مانی جائے گی۔ اب کسی مسلمان کو اس کے مال وجان سے بلاوجہ تعرض کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ لیکن اگر امام اس پناہ کو مصلحت کے خلاف خیال کرے تو پہلے اس پناہ کو ختم کرنے کا اعلان کرےگا، پھر کافر کو اتنا موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے مستقبل کے متعلق کوئی فیصلہ کرسکے۔ اس مسئلے کے متعلق مکمل تفصیل کتاب الجهاد میں بیان ہوگی۔ 3۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نمازآٹھ رکعات پڑھی تھیں۔ بعض حضرات نے ان رکعات کو فتح کے شکرانے کی نماز قراردیا ہے۔ بہرحال وقت چاشت ہی کا تھا اورآپ نے چاشت کی آٹھ رکعات ادا کی تھیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث:1668) (336) میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت ام ہانی ؓ نے اس نماز کی تفصیل بھی بیان کی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعات اس طرح ادا فرمائیں کہ ہر دورکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1290) رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوہریرہ ؓ ، حضرت ابوالدرداء ؓ اور حضرت ابوذر ؓ کو نمازچاشت پڑھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1178 و صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1675 (722) و سنن النسائي، الصیام، حدیث:2406) اس کے متعلق مکمل تفصیل آئندہ ذکر کریں گے۔ إن شاء اللہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
355
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
357
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
357
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
357
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نماز میں کپڑا ستعمال کرنے کی مختلف صورتیں بیان کررہے ہیں:پہلی صورت یہی تھی کہ گردن پر تہ بند کی گرہ لگائی جائے۔یہ ایسے کپڑے کے متعلق ہدایت تھی جس میں لپیٹ لینے کی گنجائش نہ ہو۔اس باب میں ایک دوسری صورت بیان کررہے ہیں کہ اگر کپڑے میں لپیٹ لینے کی گنجائش ہو تو بغیر گرہ لگائے اسے دونوں کندھوں پر ڈال دیا جائے۔اس سلسلے میں مختلف تعبیرات منقول ہیں۔التحاف توشیخ ،مخالفت اوراشتمال وغیرہ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے ثابت کیا کہ تعبیرات کا یہ فرق محض لفظی ہے عمل کی صورتیں مختلف نہیں ہیں۔حاصل یہ ہے کہ کپڑے کے دائیں کنارے کوبائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر ڈال لیا جائے ،یاوہ کنارہ جو دائیں کندھے پر ہے،اسے بائیں بغل سے اور جوبائیں کندھے پر ہے اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر ڈال لیاجائے،یا وہ کنارہ جو دائیں کندھے پر ہے،اسے بائیں بغل سے اورجوبائیں کندھے پر ہے اسے دائیں بغل سے نکال کر دونوں کناروں کو سینے پر باندھ لیاجائے۔ابن بطال کہتےہیں کہ اس طرح چادر اوڑھنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ حالت نماز میں رکوع کے وقت بدن کے واجب الستر(جن کاچھپانا ضروری ہے) حصے پر نظر نہیں پڑے گی۔( شرح ابن بطال 20/2۔)اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ چادر رکوع اور سجدے کی حالت میں بدن سے نہیں گرے گی۔اس کے علاوہ ایک صورت اشتمال صما کی ہے جسے اشتمال یہود بھی کہتے ہیں۔اس کی صورت یہ ہے کہ چادر کو بدن کے اردگرد اس طرح لپیٹ دیاجائے کہ بوقت ضرورت کشف عورت کے بغیر ہاتھوں کو باہر نہ نکالا جاسکے۔اسے شریعت نے ناپسند کیاہے۔( عمدۃ القاری 266/3۔) حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود بیان کریں گے ۔یہاں اس روایت کو صرف التحاف کی تفسیر بیان کرنے کے لیے لایاگیا ہے۔
امام زہری نے اپنی حدیث میں کہا کہ ملتحف متوشح کو کہتے ہیں۔ جو اپنی چادر کے ایک حصے کو دوسرے کاندھے پر اور دوسرے حصے کو پہلے کاندھے پر ڈال لے اور وہ دونوں کاندھوں کو ( چادر سے ) ڈھانک لیتا ہے۔ ام ہانی نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک چادر اوڑھی اور اس کے دونوں کناروں کو اس سے مخالف طرف کے کاندھے پر ڈالا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے اس وقت آپ ﷺ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی صاجزادی حضرت فاطمہ ؓ نے پردہ کر رکھا تھا۔ فرماتی ہیں: میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے دریافت فرمایا: ’’یہ کون عورت ہے؟‘‘ میں نے خود عرض کیا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’ام ہانی کو خوش آمدید ہو۔‘‘ پھر جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ایک ہی کپڑا اپنے گرد لپیٹ کر آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مادر زاد، یعنی حضرت علی ؓ ایک آدمی، یعنی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حالانکہ میں نے اسے پناہ دی رکھی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔‘‘ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں: یہ چاشت کی نماز تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے چوتھی روایت پیش کی ہے جو حضرت ام ہانی ؓ سے مروی ہے۔ اس میں صراحت کے ساتھ انھوں نے اپنا مشاہدہ بیان کیاہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے صرف ایک کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔ امام بخاری ؒ کا مقصد حدیث کے اسی ٹکڑے سے متعلق ہے۔ جمہور اہل علم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین ؒ عظام کا یہی مذہب ہے کہ ایک کپڑے میں نماز درست ہے اگرچہ زائد کپڑے موجود ہوں۔ البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ ، طاوس ؒ ، امام نخعی ؒ ، عبداللہ بن وہب اور محمد بن جریرطبری ؒ سے یہ منقول ہے کہ نمازی کے پاس ایک سے زائد کپڑے موجود ہوں تو ایک کپڑے میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ جمہور کی طرف سے دو کپڑوں میں نماز پڑھنے کی تاکید کو استحباب وافضلیت پر محمول کیاگیا ہے، لہذا اس اختلاف کی چنداں اہمیت نہیں۔ (عمدة القاري:263/3) 2۔ نماز کے بعد ام ہانی ؓ عنہا نے رسول اللہ کی خدمت میں ایک شکایت پیش کی کہ میں نے ابن ہبیرہ کو پناہ دی ہے، جبکہ میرے بھائی حضرت علی ؓ اسے قتل کرنےکا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ میری پناہ کو تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں۔ ممکن ہے کہ حضرت علی ؓ نے یہ سوچا ہوکہ عورت کو سیاسی معاملات میں بصیرت نہیں ہوتی، اس لیے ضروری نہیں کہ اس کی پناہ کو تسلیم کیاجائے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کی پناہ کو برقرار رکھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی کافر کو اپنی پناہ میں لے لے، خواہ یہ مسلمان کسی طبقے کا فرد ہو، مرد ہو یاعورت تو اس کی پناہ تمام مسلمانوں کی طرف سے مانی جائے گی۔ اب کسی مسلمان کو اس کے مال وجان سے بلاوجہ تعرض کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ لیکن اگر امام اس پناہ کو مصلحت کے خلاف خیال کرے تو پہلے اس پناہ کو ختم کرنے کا اعلان کرےگا، پھر کافر کو اتنا موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے مستقبل کے متعلق کوئی فیصلہ کرسکے۔ اس مسئلے کے متعلق مکمل تفصیل کتاب الجهاد میں بیان ہوگی۔ 3۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نمازآٹھ رکعات پڑھی تھیں۔ بعض حضرات نے ان رکعات کو فتح کے شکرانے کی نماز قراردیا ہے۔ بہرحال وقت چاشت ہی کا تھا اورآپ نے چاشت کی آٹھ رکعات ادا کی تھیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث:1668) (336) میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت ام ہانی ؓ نے اس نماز کی تفصیل بھی بیان کی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعات اس طرح ادا فرمائیں کہ ہر دورکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1290) رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوہریرہ ؓ ، حضرت ابوالدرداء ؓ اور حضرت ابوذر ؓ کو نمازچاشت پڑھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1178 و صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1675 (722) و سنن النسائي، الصیام، حدیث:2406) اس کے متعلق مکمل تفصیل آئندہ ذکر کریں گے۔ إن شاء اللہ۔
ترجمۃ الباب:
امام زہری نے اپنی روایت کردہ حدیث میں بیان کیا کہ ملتحف کے معنی متوشح کے ہیں اور متوشح اس شخص کو کہتے ہیں جو کپڑے کے دائیں کنارے کو بائیں بغل کے نیچے سے نکال کر اور بائیں کنارے کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر کندھوں پر ڈال لے۔ اور دونوں کندھوں کو لپیٹ لینا (اشتمال) بھی یہی ہے۔
امام زہری نے کہا: حضرت ام ہانی ؓ نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک کپڑا کندھوں پر اس طرح لپیٹا کہ بایان کنارہ دائیں طرف اور دایاں کنارہ بائیں طرف نکل آیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک بن انس نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر سالم بن امیہ سے کہ ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابومرہ یزید نے بیان کیا کہ انھوں نے ام ہانی بنت ابی طالب ؓ سے یہ سنا۔ وہ فرماتی تھیں کہ میں فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ ؓ پردہ کئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آنحضور ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے بتایا کہ ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھی آئی ہو، ام ہانی۔ پھر جب آپ نہانے سے فارغ ہو گئے تو اٹھے اور آٹھ رکعت نماز پڑھی، ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر۔ جب آپ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے ماں کے بیٹے ( حضرت علی بن ابی طالب ) کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک شخص کو ضرور قتل کرے گا۔ حالانکہ میں نے اسے پناہ دے رکھی ہے۔ یہ ( میرے خاوند ) ہبیرہ کا فلاں بیٹا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ام ہانی جسے تم نے پناہ دے دی، ہم نے بھی اسے پناہ دی۔ ام ہانی نے کہا کہ یہ نماز چاشت تھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت علی ؓ ام ہانی کے سگے بھائی تھے۔ ایک باپ ایک ماں۔ ان کو ماں کا بیٹا اس لیے کہا کہ مادری بھائی بہن ایک دوسرے پر بہت مہربان ہوتے ہیں۔ گویا ام ہانی یہ ظاہر کررہی ہیں کہ حضرت علی ؓ میرے سگے بھائی ہونے کے باوجود مجھ پر مہربانی نہیں کرتے۔ ہبیرہ کا بیٹا جعدہ نامی تھا جو ابھی بہت چھوٹا تھا۔ اسے حضرت علی ؓ مارنے کا ارادہ کیوں کرتے۔ ابن ہشام نے کہا ام ہانی نے حارث بن ہشام اور زہیربن ابی امیہ یا عبداللہ بن ربیعہ کو پناہ دی تھی۔ یہ لوگ ہبیرہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ شاید فلاں بن ہبیرہ میں راوی کو بھول سے عم کا لفظ چھوٹ گیا ہے، یعنی دراصل فلاں بن عم ہبیرہ ہے۔ ہبیرہ بن ابی وہب بن عمرو مخزومی ام ہانی بنت ابی طالب کے خاوند ہیں جن کی اولاد میں ایک بچے کا نام ہانی بھی ہے جن کی کنیت سے اس خاتون کو ام ہانی سے پکارا گیا۔ ہبیرہ حالت شرک ہی میں مرگئے۔ ان کا ایک بچہ جعدہ نامی بھی تھا جو ام ہانی ہی کے بطن سے ہے جن کا اوپر ذکر ہوا، فتح مکہ کے دن ام ہانی نے ان ہی کو پناہ دی تھی۔ ان کے لیے حضور ﷺ نے ان کی پناہ کو قبول فرمایا، آپ اس وقت چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ بعض کے نزدیک یہ فتح مکہ پر شکریہ کی نماز تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Murra (RA): (The freed slave of Um Hani) Um Hani, the daughter of Abi Talib said, "I went to Allah's Apostle (ﷺ) in the year of the conquest of Makkah and found him taking a bath and his daughter Fatima was screening him. I greeted him. He asked, 'Who is she?' I replied, 'I am Um Hani bint Abi Talib.' He said, 'Welcome! O Um Hani.' When he finished his bath he stood up and prayed eight Rak at while wearing a single garment wrapped round his body and when he finished I said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! My brother has told me that he will kill a person whom I gave shelter and that person is so and so the son of Hubaira.' The Prophet (ﷺ) said, 'We shelter the person whom you have sheltered.' “Um Ham added, "And that was before noon (Duha)."