تشریح:
1۔یہ حدیث نبوت کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تورات نہیں پڑھی تھی اور نہ اس واقعے سے پہلے اس سے کسی قسم کی واقفیت ہی رکھتے تھے اس کے باوجود آپ نے تورات کے حکم کی طرف اشارہ کیا فرمایا اور آپ کے اشارے کے مطابق تورات میں حکم رجم ظاہر ہوا۔ یہ علامات نبوت کی عظیم ترین دلیل ہے۔2۔دراصل یہودیوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر زانی اور زانیہ کا فیصلہ طلب کرو۔اگر آپ رجم سنائیں تو اس سے صاف انکار کردیا جائے اور اگر کوڑے مارنے کا حکم دیں تو اسے قبول کر لیا جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ہم سے کوڑوں پر اکتفا کرنے کے متعلق سوال کیا تو ہم کہہ دیں گے کہ تیرے آخر الزمان نبی کے حکم کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ واقعی آپ نبی برحق ہیں اور اس میں ذرابھر بھی شک نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ﴾’’جب ان کے پاس وہ چیز (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم )آگئی جسے انھوں نے پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کر دیا۔‘‘ (البقرة:89/2)انھوں نے تورات میں پائی جانے والی نشانیوں کے باعث آپ کو اچھی طرح پہچان لیا تھا لیکن محض ضد کی وجہ سے انکار کر دیا جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق قرآن نے صراحت کی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ﴾ ’’اور انھوں نے ازراہ ظلم اور تکبر انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے۔‘‘(کہ موسیٰ سچے ہیں)(النمل:14/27)