Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3653.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ حضرت عمرخطاب ؓ انھیں اپنے بہت قریب رکھتے تھے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے (اعتراض کرتے ہوئے)کہا: ان جیسے تو ہمارے بیٹے بھی ہیں(ان کی کیا خصوصیت ہے؟)انھوں نے فرمایا: ان کا مقام تم جانتے ہو۔ پھر انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے متعلق پوچھا: ’’جس وقت اللہ کی مدد اور فتح آجائے گی۔‘‘حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات کی اطلاع دی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس آیت کریمہ سے بھی وہی کچھ جانتا ہوں جو آپ جانتے ہیں۔
تشریح:
1۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کا مقصد تھا کہ ہم شیوخ ہیں اور یہ ایک نوخیز لڑکا ہے آپ اسے کیوں ہم سے آگے بٹھا تے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے بتایا میں اسے اس کے علم کی وجہ سے آگے بٹھاتا ہوں اور اپنے قریب کرتا ہوں اور علم ہر اس انسان کو بلند کرتا ہے جو بلند نہ ہو۔ چنانچہ انھوں نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر پوچھی تو انھوں نے وہی بتائی جسے حضرت عمر بھی جانتے تھے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی دعا کا نتیجہ تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو چھاتی سے لگا کر یہ دعا فرمائی تھی ۔’’اے اللہ ! اسے دین میں سمجھ عطا کر۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث:143) ’’اے اللہ !اسے اپنی کتاب کا علم دے۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:75) ’’اے اللہ! اسے حکمت سے مالا مال کر دے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل، حدیث:3756)واقعی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی دعوت تمام ہو چکی ہے اور دین مکمل ہو گیا ہے اب آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔2۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا معجزہ ہے۔ آپ نے حضرت ابن عباس ؓ کوبتا دیا تھا کہ اس میں میری وفات کی طرف اشارہ ہے آپ نے وقوع سے پہلے خبر دی چنانچہ اس کے مطابق ہی ہوا۔یہ آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3490
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3627
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3627
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3627
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ حضرت عمرخطاب ؓ انھیں اپنے بہت قریب رکھتے تھے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے (اعتراض کرتے ہوئے)کہا: ان جیسے تو ہمارے بیٹے بھی ہیں(ان کی کیا خصوصیت ہے؟)انھوں نے فرمایا: ان کا مقام تم جانتے ہو۔ پھر انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے متعلق پوچھا: ’’جس وقت اللہ کی مدد اور فتح آجائے گی۔‘‘حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات کی اطلاع دی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس آیت کریمہ سے بھی وہی کچھ جانتا ہوں جو آپ جانتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کا مقصد تھا کہ ہم شیوخ ہیں اور یہ ایک نوخیز لڑکا ہے آپ اسے کیوں ہم سے آگے بٹھا تے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے بتایا میں اسے اس کے علم کی وجہ سے آگے بٹھاتا ہوں اور اپنے قریب کرتا ہوں اور علم ہر اس انسان کو بلند کرتا ہے جو بلند نہ ہو۔ چنانچہ انھوں نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر پوچھی تو انھوں نے وہی بتائی جسے حضرت عمر بھی جانتے تھے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی دعا کا نتیجہ تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو چھاتی سے لگا کر یہ دعا فرمائی تھی ۔’’اے اللہ ! اسے دین میں سمجھ عطا کر۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث:143) ’’اے اللہ !اسے اپنی کتاب کا علم دے۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:75) ’’اے اللہ! اسے حکمت سے مالا مال کر دے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل، حدیث:3756)واقعی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی دعوت تمام ہو چکی ہے اور دین مکمل ہو گیا ہے اب آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔2۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا معجزہ ہے۔ آپ نے حضرت ابن عباس ؓ کوبتا دیا تھا کہ اس میں میری وفات کی طرف اشارہ ہے آپ نے وقوع سے پہلے خبر دی چنانچہ اس کے مطابق ہی ہوا۔یہ آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابی بشر نے ، ان سے سعید بن جبیر نے ، ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب ابن عباس ؓ کو اپنے پاس بٹھاتے تھے ۔ اس پر عبدالرحمن بن عوف ؓ نے حضرت عمر ؓ سے شکایت کی کہ ان جیسے تو ہمارے لڑکے بھی ہیں ۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ یہ محض ان کے علم کی وجہ سے ہے ۔ پھر حضرت عمر ؓ نے عبداللہ بن عباس ؓ سے آیت ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴾کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تھی جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی حضرت عمر ؓ نے فرمایا جو تم نے سمجھا ہے میں بھی وہی سمجھتاہوں ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے، کیونکہ آنحضرت ﷺ کو جوبات بتلائی گئی تھی کہ آپ کی وفات قریب ہے وہ پوری ہوئی، اللہ جب چاہے کسی بندے کو کچھ آگے کی باتیں بتلادیتا ہے مگر یہ غیب دانی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی غیب دان کہنا کفر ہے جیسا کہ علماءاحناف نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے۔ غیب داں صرف اللہ ہے۔ انبیاءاولیاءسب اللہ کے علم کے محتاج ہیں۔ بغیر اللہ کے بتلائے وہ کچھ بھی بول نہیں سکتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Jubair (RA): About Ibn 'Abbas (RA): 'Umar bin Al-Khattab (RA) used to treat Ibn 'Abbas (RA) very favorably 'Abdur Rahman bin 'Auf said to him. "We also have sons that are equal to him (but you are partial to him.)" Umar said, "It is because of his knowledge." Then 'Umar asked Ibn 'Abbas (RA) about the interpretation of the Verse:- 'When come the Help of Allah and the conquest (of Makkah) (110.1) Ibn 'Abbas (RA) said. "It portended the death of Allah's Apostle, which Allah had informed him of." 'Umar said, "I do not know from this Verse but what you know."