تشریح:
1۔اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمزوری معاف فرمائے۔‘‘ اس کمزوری سے حضرت ابو بکر ؓ کے فضائل میں کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ ان کی مدت خلافت ہی دوسال تھی۔دوسالوں میں فتنہ ارتداد نے سر اٹھایا اور مانعین زکاۃ نے الگ پریشان کیا۔ اگر ایسے حالات میں حضرت عمر ؓ جیسے سخت اور طاقت ور بھی ہوتے تو حالات کا مقابلہ نہ کر سکے ۔2۔رسول اللہ ﷺ نے عربوں کے تکیہ کلام کے مطابق گفتگو فرمائی ۔ ہمارے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ اس میں حضرت ابو بکر ؓ کو جو رسول اللہ ﷺ سے نسبت اتحادی پیدا ہوئی تھی اس کی طرف اشارہ ہے ۔3۔اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرے ان کلمات سے انھیں قرب اجل کی خبر دی گئی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾میں قرب وفات کی خبر دی گئی تھی۔ ان معانی کی وجہ سے امام بخاری ؒ اس روایت کو مناقب ابی بکر ؓ میں لائے ہیں رسول اللہ ﷺ سے نسبت اتحادی بڑی منقبت اور کیا ہو سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔