تشریح:
ایک حدیث میں ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3257) اس حدیث میں تین دروازوں کا ذکر ہے۔ ارکان اسلام کے اعتبار سے ایک باب الحج ہوگا۔باقی تین دروازوں کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تفصیل یہ ہے کہ ایک دروازہ باب الکا ظمین ہے مسند امام احمد میں ہے کہ ایک دروازہ باب الایمن ہے جسے باب المتوکلین بھی کہا جاتا ہے۔ (مسند أحمد:436/2) اس سے بلا حساب جنت میں داخل ہونے والوں کو گزارا جائے گا۔ ایک دروازہ باب الذکر یا باب العلم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ سے متعلق دروازے جنت کے بڑے آٹھ دروازوں کے بعد ہوں گے اور ان کی تعداد آٹھ سے زیادہ ہوگی نیز جن لوگوں کو آٹھوں دروازوں سے آواز آئے گی وہ تعداد میں بہت کم ہوں گے اور ان سے مراد وہ خوش قسمت حضرات ہیں جنھوں نے ہر قسم کے نیک اعمال کا ااحاطہ کیا ہو گا کیونکہ تمام واجبات (فرائض) پر عمل کرنے والے تو بے شمار ہوں گے لیکن تمام تطوعات یعنی نوافل کا احاطہ کوئی کوئی کرے گا۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے امید ہے کہ ابو بکر! وہ آپ ہوں گے۔‘‘ کیونکہ فرائض ونوافل کو جمع کرنے والے آپ ہی ہیں۔واضح رہے کہ جو شخص جس عمل کو بکثرت کرتا ہوگا اسے اسی دروازے سے گزارا جائے گا اگرچہ دعوت تمام دروازوں سے گزرنے کی دی جائے گی۔ (فتح الباري:37/7)