Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
()
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3667.
حضرت معاویہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ کی شریعت کوقائم رکھے گا۔ انھیں ذلیل یا ان کی مخالفت کرنے والے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا اور وہ اسی حالت پر گامزن ہوں گے۔‘‘ (راوی حدیث) عمیر نے کہا کہ مالک بن یخامر حضرت معاذ بن جبل کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں وہ لوگ شام میں ہیں۔ حضرت امیر معاویہ ؓ نے کہا: یہ مالک بن یخامر حضرت معاذ بن جبل ؓ کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ شام کے علاقے میں ہیں۔
تشریح:
1۔یہ دونوں احادیث بھی علامات نبوت سے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے لے کر اس وقت تک یہ وصف باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔ حدیث میں مذکور غلبے سے مراد سیاسی اور اخلاقی غلبہ ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ طائفہ منصورہ حکومت کے کارندوں سے ہو۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے تھے کہ اس سے اہل حدیث مراد نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا وہ کون ہوں گے؟ البتہ امام بخاری ؒ نے اس سے مراد اہل علم کی جماعت لی ہے جیسا کہ انھوں نے خود صراحت کی ہے۔(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، قبل الحدیث:7311)2۔حضرت امیر معاویہ ؓ کی حکومت شام کے علاقے میں تھی انھوں نے اس حدیث کو اپنی حقانیت کے لیے پیش فرمایا کیونکہ طائفہ ظاہر ہ اور منصورہ اس وقت صرف ا نھی کا تھا مگر یہ کوئی خصوصیت نہیں ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کا مقصود یہ ہے کہ میری امت کے سب لوگ یکدم گمراہ ہو جائیں ایسا نہیں ہو گا بلکہ اس شریعت کی آبیاری کرنے والے ہر وقت موجود رہیں گے اور قیامت تک باقی رہیں گے الحمد اللہ۔اہل حدیث حضرات کی کوششوں کے نتیجے میں لوگ کتاب و سنت کی طرف آرہے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3504
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3641
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3641
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3641
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
حضرت معاویہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ کی شریعت کوقائم رکھے گا۔ انھیں ذلیل یا ان کی مخالفت کرنے والے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا اور وہ اسی حالت پر گامزن ہوں گے۔‘‘ (راوی حدیث) عمیر نے کہا کہ مالک بن یخامر حضرت معاذ بن جبل کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں وہ لوگ شام میں ہیں۔ حضرت امیر معاویہ ؓ نے کہا: یہ مالک بن یخامر حضرت معاذ بن جبل ؓ کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ شام کے علاقے میں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔یہ دونوں احادیث بھی علامات نبوت سے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے لے کر اس وقت تک یہ وصف باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔ حدیث میں مذکور غلبے سے مراد سیاسی اور اخلاقی غلبہ ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ طائفہ منصورہ حکومت کے کارندوں سے ہو۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے تھے کہ اس سے اہل حدیث مراد نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا وہ کون ہوں گے؟ البتہ امام بخاری ؒ نے اس سے مراد اہل علم کی جماعت لی ہے جیسا کہ انھوں نے خود صراحت کی ہے۔(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، قبل الحدیث:7311)2۔حضرت امیر معاویہ ؓ کی حکومت شام کے علاقے میں تھی انھوں نے اس حدیث کو اپنی حقانیت کے لیے پیش فرمایا کیونکہ طائفہ ظاہر ہ اور منصورہ اس وقت صرف ا نھی کا تھا مگر یہ کوئی خصوصیت نہیں ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کا مقصود یہ ہے کہ میری امت کے سب لوگ یکدم گمراہ ہو جائیں ایسا نہیں ہو گا بلکہ اس شریعت کی آبیاری کرنے والے ہر وقت موجود رہیں گے اور قیامت تک باقی رہیں گے الحمد اللہ۔اہل حدیث حضرات کی کوششوں کے نتیجے میں لوگ کتاب و سنت کی طرف آرہے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہاہم سے ولید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یزید بن جابر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا اور انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا تھا ۔ آپ فرمارہے تھے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا ، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حالت پر رہیں گے۔ عمیر نے بیان کیا کہ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ معاذ بن جبل ؓ نے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں یہ لوگ شام میں ہیں ۔ امیر معاویہ نے کہا کہ دیکھویہ مالک بن یخامر یہاں موجود ہیں ، جو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے معاذ ؓ سے سنا کہ یہ لوگ شام کے ملک میں ہیں ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت معاویہ ؓ بھی شام میں تھے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اہل شام اس حدیث سے مراد ہیں، مگر یہ کوئی خصوصیت نہیں ہے، مطلب آنحضرت ﷺ کا یہ ہے کہ میری امت کے سب لوگ یک دم گمراہ ہوجائیں ایسا نہ ہوگا بلکہ ایک گروہ تب بھی ضرور بالضرور حق پر قائم رہے گا اور یہ اہل حدیث کا گروہ ہے، امام احمد بن حنبل نے یہی فرمایا ہے اور بھی بہت سے علماءنے صراحت سے لکھا ہے کہ اس پیشین گوئی کے مصداق وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیل وقال اور آراءرجال سے ہٹ کر صرف ظاہر نصوص کتاب وسنت کو اپنا مدار عمل قرار دیا اور صحابہ تابعین اور تبع تابعین و محدثین وائمہ مجتہدین کے طرز عمل کو اپنایا، ظاہر ہے کہ مذکورہ بزرگان اسلام موجودہ تقلید جامد کے شکار نہ تھے نہ ان میں مسالک کے ناموں پر مختلف گروہ تھے جیسا کہ بعد میں پیدا ہوئے کہ کعبہ شریف تک کو چار مصلوں میں تقسیم کردیا گیا۔ شکر ہے اللہ پاک کا کہ جماعت اہل حدیث کی مساعی کے نتیجہ میں آج مسلمان پھر کتاب وسنت کی طرف آرہے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muawiyah (RA): I heard the Prophet (ﷺ) saying, "A group of people amongst my followers will remain obedient to Allah's orders and they will not be harmed by anyone who will not help them or who will oppose them, till Allah's Order (the Last Day) comes upon them while they are still on the right path."