تشریح:
1۔اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کی عظیم منقبت کا بیان ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ حضرت ا بوبکر ؓ اور دیگرصحابہ کرام ؓ کی صحبت اخلاص سے اختیار کی اور وہ سب آپ سے راضی خوشی تھے۔آپ نے آخر میں جو ابن عباس ؓ سے فرمایا وہ اس لیے کہ شاید ان سے رعیت کے حقوق میں کوئی کوتاہی ہوگئی ہو کہ بلکہ ان کا یہ کلام محض اظہار تواضع اور انکسار پر مبنی ہے۔2۔حضرت عمر ؓ کی بے قراری کے دو اسباب تھے:ایک لوگوں کی فکر،دوسرے اپنی نجات کی فکر۔3۔حضرت عمر ؓ جیسا عادل ،منصف مزاج حق ،حق پرست ،متبع سنت اور خلیفہ راشد اس قدر اللہ کا خوف رکھتا ہے تو ہمارے دل پر تو بہت افسوس کرنا چاہیے کہ ہم سر سے پاؤں تک گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں،پھر بھی اللہ سے نہیں ڈرتے۔ واللہ المستعان۔