قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الفَخِذِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ:)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَرْهَدٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: «الفَخِذُ عَوْرَةٌ» وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: «حَسَرَ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ فَخِذِهِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «وَحَدِيثُ أَنَسٍ أَسْنَدُ، وَحَدِيثُ جَرْهَدٍ أَحْوَطُ حَتَّى يُخْرَجَ مِنَ اخْتِلاَفِهِمْ» وَقَالَ أَبُو مُوسَى: «غَطَّى النَّبِيُّ ﷺ رُكْبَتَيْهِ حِينَ دَخَلَ عُثْمَانُ» وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: «أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ ﷺ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، فَثَقُلَتْ عَلَيَّ حَتَّى خِفْتُ أَنْ تَرُضَّ فَخِذِي»

371. حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ، فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلاَةَ الغَدَاةِ بِغَلَسٍ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ، وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ، وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ حَسَرَ الإِزَارَ عَنْ فَخِذِهِ حَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ القَرْيَةَ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ {فَسَاءَ صَبَاحُ المُنْذَرِينَ} [الصافات: 177] قَالَهَا ثَلاَثًا، قَالَ: وَخَرَجَ القَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ، قَالَ عَبْدُ العَزِيزِ: وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: وَالخَمِيسُ - يَعْنِي الجَيْشَ - قَالَ: فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً، فَجُمِعَ السَّبْيُ، فَجَاءَ دِحْيَةُ الكَلْبِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ، قَالَ: «اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً»، فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ، لاَ تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ، قَالَ: «ادْعُوهُ بِهَا» فَجَاءَ بِهَا، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا»، قَالَ: فَأَعْتَقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَزَوَّجَهَا، فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، مَا أَصْدَقَهَا؟ قَالَ: نَفْسَهَا، أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ، جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ، فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا، فَقَالَ: «مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ» وَبَسَطَ نِطَعًا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ، قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَدْ ذَكَرَ السَّوِيقَ، قَالَ: فَحَاسُوا حَيْسًا، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرت امام ابوعبداللہ ( بخاری ) نے کہا کہ ابن عباس، جرہد اور محمد بن حجش نے نبی کریم ﷺ سے یہ نقل کیا کہ ران شرمگاہ ہے۔ انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ( جنگ خیبر میں ) اپنی ران کھولی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) کہتے ہیں کہ انس ؓ کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ اور جرہد کی حدیث میں بہت احتیاط ملحوظ ہے۔ اس طرح ہم اس بارے میں علماء کے باہمی اختلاف سے بچ جاتے ہیں۔کیوں کہ اگرران بالفرض ستر نہیں تب بھی اس کے چھپانے میں کوئی برائی نہیں۔اور ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ عثمان ؓ آئے تو نبی کریم ﷺ نے اپنے گھٹنے ڈھانک لیے اور زید بن ثابت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر ایک مرتبہ وحی نازل فرمائی۔ اس وقت آپ ﷺ کی ران مبارک میری ران پر تھی، آپ کی ران اتنی بھاری ہو گئی تھی کہ مجھے اپنی ران کی ہڈی ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔تشریح : حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ران شرمگاہ میں داخل ہے، اس لیے اس کا چھپانا واجب ہے۔ اور ابن ابی ذائب رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوداؤدظاہری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ محلّی میں امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگرران شرمگاہ میں داخل ہوتی تواللہ پاک اپنے رسولﷺ کی جو معصوم اور پاک تھے، ران نہ کھولتا، نہ کوئی اس کو دیکھ لیتا۔ امام بخاری کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے، باب کے تحت حضرت عبداللہ بن عباس کی جس حدیث کا ذکر امام بخاری لائے ہیں اس کوترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور جرہد کی حدیث کو امام مالک نے مؤطا میں اور محمد بن حجش کی حدیث کو حاکم نے مستدرک میں اور امام بخاری نے تاریخ میں نکالا ہے۔ مگران سب کی سندوں میں کلام ہے۔ حضرت انس بن مالک کی روایت یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود لائے ہیں اور آپ کا فیصلہ احتیاطاً ران ڈھانکنے کا ہے وجوباً نہیں۔ آپ نے مختلف روایات میں تطبیق دینے کے لیے یہ درمیانی راستہ اختیار فرمایا ہے۔ جو آپ کی کمال دانائی کی دلیل ہے، ایسے فروعی اختلافات میں درمیانی راستے تلاش کئے جاسکتے ہیں مگرعلماءکے دلوں میں وسعت کی ضرورت ہے، اللہ پیدا کرے۔امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ران کا شرمگاہ میں داخل ہونا صحیح ہے اور دلائل سے ثابت ہے، مگرناف اور گھٹنا سترمیں داخل نہیں ہیں۔ آپ کی تقریر یہ ہے۔ قال النووی ذہب اکثر العلماءالی ان الفخذ عورۃ وعن احمد ومالک فی روایۃ العورۃ القبل والدبر فقط وبہ قال اہل الظاہر وابن جریر والاصطخریوالحق ان الفخذ عورۃ الخ۔ ( نیل، ج2، ص: 62 ) یعنی بیشتر علماءبقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں کہ ران بھی شرم گاہ میں داخل ہے اور امام احمدوامام مالک کی روایت میں صرف قبل اور دبرہی شرمگاہ ہیں۔ ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ اہل ظاہر اور ابن جریر اور اصطخری وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ مگرحق یہ ہے کہ ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے۔ وقد تقرر فی الاصول ان القول ارجح من الفعل۔ ( نیل ) یعنی اصول میں یہ مقرر ہوچکا ہے کہ جہاں قول اور فعل میں بظاہر تضاد نظر آئے وہاں قول کو ترجیح دی جائے گی۔پس متعدد روایات میں آپ ﷺ کا ارشاد الفخذ عورۃ ( یعنی ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے ) وارد ہے۔ رہا آپ کا فعل سوحضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الرابع غایۃ مافی ہذہ الواقعۃ ان یکون ذالک بالنبی ﷺ الخ یعنی چوتھی تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ اس واقعہ کی غایت یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کی خصوصیات طیبات میں سے ہو۔حضرت زیدبن ثابت رحمۃ اللہ علیہ جن کا ذکر یہاں آیا ہے، یہ انصاری ہیں جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے وحی قرآن لکھنے پر مامور تھے اور حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمع قرآن کا شرف ان کو حاصل ہوا۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر انھوں نے کتب یہود اور سریانی زبان کا علم حاصل کرلیاتھا اور اپنے علم وفضل کے لحاظ سے یہ صحابہ میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔روایت میں امہات المؤمنین میں سے ایک محترمہ خاتون صفیہ بنت حیی کا ذکر آیا ہے جو ایک یہودی سردار کی صاحبزادی تھیں۔ یہ جنگ خیبر میں جب لونڈی بن کر گرفتارہوئیں توآنحضرت ﷺ نے ان کے احترام کے پیش نظر ان کو آزاد کردیا ان کی اجازت سے آپ نے ان کو اپنے حرم محترم میں داخل فرمالیا۔ خیبر سے روانہ ہوکر مقام صہباء پر رسم عروسی ادا کی گئی اور جو کچھ لوگوں کے پاس کھانے کا سامان تھا، اس کو جمع کرکے دعوت ولیمہ کی گئی۔ کھانے میں صرف پنیر، چھوہارے اور گھی کا ملیدہ تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا صبر و تحمل اور اخلاق حسنہ میں ممتاز مقام رکھتی تھیں، حضورعلیہ السلام بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ ساٹھ سال کی عمر میں رمضان 50ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ ( ؓ)

371.

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کا رخ کیا تو ہم نے نماز فجر خیبر کے نزدیک اندھیرے میں (اول وقت میں) ادا کی۔ پھر نبی ﷺ اور حضرت ابوطلحہ ؓ سوار ہوئے۔ میں حضرت ابوطلحہ کے پیچھے سوار تھا۔ نبی ﷺ نے خیبر کی گلیوں میں اپنی سواری کو ایڑی لگائی، (دوڑتے وقت) میرا گھٹنا نبی ﷺ کی ران مبارک سے چھو جاتا تھا۔ پھر آپ نے اپنی ران سے چادر ہٹا دی یہاں تک کہ مجھے نبی ﷺ  کی ران مبارک کی سفیدی نظر آنے لگی اور جب آپ بستی کے اندر داخل ہو گئے تو آپ نے تین دفعہ یہ کلمات فرمائے: ’’اللہ أکبر، خیبر ویران ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے آنگن میں پڑاؤ کرتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بڑی ہولناک ہوتی ہے جو قبل ازیں متنبہ کیے گئے ہوں۔‘‘ حضرت انس ؓ  کہتے ہیں: بستی کے لوگ اپنے کام کاج کے لیے نکلے تو کہنے لگے: یہ محمد (ﷺ) اور ان کا لشکر آ پہنچا۔ حضرت انس ؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے خیبر کو بزور شمشیر فتح کیا۔ پھر قیدی جمع کیے گئے تو حضرت دحیہ ؓ آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھے ان قیدیوں میں سے ایک لونڈی عطا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جاؤ کوئی لونڈی لے لو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: اے اللہ کے نبی! آپ نے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی صفیہ بنت حیی حضرت دحیہ کو دے دی، حالانکہ آپ کے علاوہ کوئی اس کے مناسب نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا اسے (دحیہ‬ ؓ ک‬و) صفیہ سمیت بلاؤ۔‘‘ چنانچہ وہ صفیہ سمیت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی ﷺ نے جب صفیہ کو دیکھا تو (دحیہ سے) فرمایا: ’’تم اس کے علاوہ قیدیوں میں سے کوئی اور لونڈی لے لو۔‘‘ حضرت انس ؓ  کہتے ہیں: پھر نبی ﷺ نے صفیہ کو آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ ثابت بنانی نے حضرت انس ؓ سے پوچھا: اے ابوحمزہ نبی ﷺ نے ان کا حق مہر کیا مقرر کیا تھا؟ انہوں نے کہا: خود ان کی آزادی۔ آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا حتی کہ جب روانہ ہوئے تو راستے ہی میں حضرت ام سلیم‬ ؓ ن‬ے صفیہ کو آپ کے لیے آراستہ کر کے رات کو آپ کے پاس بھیجا اور صبح کو نبی ﷺ نے بحیثیت دولہا فرمایا: ’’جس کے پاس جو کچھ ہے وہ یہاں لے آئے۔‘‘ اور آپ نے چمڑے کا ایک دسترخوان بچھا دیا تو کوئی کھجوریں لایا اور کوئی گھی لایا۔ راوی حدیث (عبدالعزیز) کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ حضرت انس نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر انہوں نے ملیدہ تیار کیا اور یہی رسول اللہ ﷺ کی دعوت ولیمہ تھی۔