تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے ران کے واجب الستر ہونے یا نہ ہونے کے متعلق دونوں طرح کے دلائل ذکر کر دیے ہیں، لیکن کوئی فیصلہ نہیں فرمایا، کیونکہ ران کے عورة (قابل الستر) نہ ہونے کے متعلق جو مضبوط دلیل ہے وہ حدیث انس ہے جسے امام بخاری ؒ نے تفصیل سے نقل فرمایا ہے۔ اس میں چند ایک احتمالات ہیں جن کی بنا پر اس کے عورة نہ ہونے کے متعلق استدلال محل نظر بن جاتا ہے۔ شاید اسی بنا پر امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا، وہ احتمالات حسب ذیل ہیں: صحیح مسلم کی روایت میں (انحسر الإزار) کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں کہ چادر خود بخود اوپر ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے اسے از خود اوپر نہیں اٹھایا۔ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث:4665 (1365)) اس کے علاوہ مسند امام احمد اور طبرانی میں بھی روایت انھیں الفاظ سے نقل ہوئی ہے، اس روایت کو جب محدث اسماعیلی ؒ نے بیان کیا تو اس کے الفاظ بایں طور ہیں (خرالإزار) ’’آپ کی چادر گر پڑی ۔‘‘عربی زبان میں لفظ خر بمعنی وقوع بھی انحسارکی طرح لازم استعمال ہوتا ہے، اگر یہ صحیح ہے تو معنی یہ ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ نے از خود اپنی ران سے چادر نہیں ہٹائی، بلکہ بھیڑیا سواری کو تیز دوڑانے کی وجہ سے ران کا حصہ کھل گیا۔ رسول اللہ ﷺ کی جلالت قدر کے شایان شان بھی یہی ہے کہ آپ کی طرف دانستہ ران کے کھولنے کا انتساب نہ کیا جائے، خصوصاً جبکہ آپ کے ارشادات سے اس کا قابل سترہونا ثابت بھی ہو چکا ہو۔ حضرت انس ؓ نے جو اس فعل کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی ہے وہ شاید اس لیے کہ انھوں نے حالت مذکورہ میں ران مبارک کو کھلا دیکھا تو یہی گمان کر لیا کہ آپ نے قصداًایسا کیا ہے، حالانکہ واقع میں ایسا نہ تھا۔ صحیح بخاری میں چونکہ لفظ (حَسَرَ) ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دانستہ چادر ران سے ہٹائی ۔اس کا جواب یہ ہے کہ حسر لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ اسے متعدی ہی استعمال کیا جائے، بلکہ یہاں لازم کے معنی میں استعمال کرنا زیادہ اولیٰ ہے، بایں صورت معنی ہوں گے کہ ازار از خود کسی وجہ سے ہٹ گیا۔ پھر صحیح مسلم میں مروی الفاظ سے اس معنی کی مزید تائید ہوتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حسر الإزار کے یہ معنی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ازار (تہ بند ) کو ران کے مقام پر ڈھیلا کیا ہوتا کہ ران سے چمٹا ہوا نہ رہے اور ایسا کرنے میں اتفاقاً ران کا کچھ حصہ کھل گیا ہو۔ یہ احتمال اس روایت کے زیادہ مناسب ہے، جو علامہ کرمانی ؒ نے بعض نسخوں کے حوالے سے بیان کی ہےکہ (عن فخذه) کے بجائے (على فخذه ) ہے، یعنی ازارکا جو حصہ ران پر تھا آپ نے اسے کھولا اور ڈھیلا کیا۔ (شرح الکرماني:31/2) رسول اللہ ﷺ کی سواری ایک تنگ گلی میں جا رہی تھی اور ہوا بھی چل رہی تھی، اس لیے ممکن ہے کہ گھٹنا باربارتہ بند سے الجھتا ہواور ہوا نے اس تہ بند کا رخ پلٹ دیا ہو۔ اگر آپ نے خود ہٹا یا تو اس کی معقول وجہ یہ ہے کہ تہ بند کے بار بار الٹنے سے آپ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ کہیں اس الجھاؤ میں ایسا نہ ہو کہ اس حصے کی بے پردگی ہو جائے جس کی کسی صورت میں نوبت نہیں آنی چاہیے، اس خطرے کے پیش نظر ممکن ہے کہ آپ نے اپنا ازار گھٹنے سے ہٹا کر ران کے نیچے دبا لیا ہو۔ خود صحیح بخاری میں ایک روایت موجود ہے جس میں فخذ کے بجائے قدم کے الفاظ ہیں۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میرا قدم آپ کے قدم سے مس کر رہا تھا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:610) 2۔ علامہ قرطبی ؒ کہتے ہیں: حدیث انس پر حدیث جرہد کو ترجیح حاصل ہے، کیونکہ اس کے معارض جو بھی احادیث ہیں وہ خاص واقعات و حالات سے متعلق ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت کا احتمال بھی ہو سکتا ہے اور اس امرکا بھی احتمال ہے کہ ران کے متعلق پہلے نرمی چلی آرہی تھی، اس کے بعد اس کے عورۃ ہونے کا حکم ہوا لیکن حدیث جرہد میں اس قسم کا کوئی احتمال نہیں، بلکہ اس میں ایک کلی حکم بیان ہوا ہے۔ (فتح الباري:623/1) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے انھی احتمالات کی بنا پر کہا ہے کہ جرہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پر عمل کرنا احتیاط کا تقاضا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذہن میں اس کے متعلق کچھ تفصیل متوسط اور معتدل موقف رکھتے ہیں وہ اس طرح کہ ران کے اوپر والے حصے کو (سَوأتَين) (قبل دبر)کے ساتھ ملحق خیال کرتے ہیں لیکن وہ حصہ جو گھٹنے کی جانب ہے اس کے متعلق کچھ نرم گوشہ اس طرح ہے کہ بے تکلف احباب اور وہ حضرات جو بکثرت آنے جانے والے ہیں ان کے سامنے کشف کا مضائقہ نہیں، لیکن اجانب اور وہ حضرات جو كبھی کبھار آنے جانے والے ہوں یا ایسے لوگ جن سے بے تکلفی نہ ہو ان کے سامنے امام بخاری ؒ بھی کشف فخذ کی اجازت نہیں دیتے۔ واللہ أعلم۔
نوٹ:اس حدیث سے متعلق دیگر مباحث الجهاد اور کتاب النکاح میں بیان ہوں گے۔