Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: What may be used to cover the private parts of the body)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
373.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے دو قسم کی خریدوفروخت سے منع فرمایا: ایک صرف چھونے سے اور دوسری جو صرف پھینکنے سے پختہ ہو جائے، نیز آپ نے اشتمال صماء اور ایک کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا۔
تشریح:
1۔ دور جاہلیت میں خرید و فروخت کے دو ایسے طریقے رائج تھے جن میں جوئے اور دھوکے کا شائبہ تھا۔ اس لیے شریعت نے ان سے منع فرمایا۔ ایک ملامسہ اور دوسرا منابذہ، بیع ملامسہ کی صورت یہ تھی کہ کپڑے کی دوکان پر فروخت کنندہ اور خریدار کے درمیان زبانی بات چیت طے ہو گئی، قیمت کا بھی فیصلہ ہو گیا ، اب خریدار نے اپنی آنکھیں بند کر کے اپنا ہاتھ جس تھان پر رکھ دیا وہی تھان مقرر شدہ قیمت میں اس کا ہو گیا ۔ کسی کے لیے خیارمجلس، خیار عیب یا خیار رؤیت نہیں ہوتا تھا۔ شریعت نے اس سے منع کردیا۔ اسی طرح منابذہ کا یہ طریقہ تھا کہ زبانی قیمت طے ہونے کے بعد فروخت کنندہ نے آنکھ بند کر کے جو تھان خریدارکی طرف پھینک دیا وہی مشتری کا ہو گیا، خواہ وہ اعلیٰ قسم کا ہو یا گھٹیا قسم کا۔ اسے بھی شریعت نے حرام قراردیا ہے۔ عنوان سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اس لیے ان سے متعلقہ مباحث کو ہم کتاب البیوع میں بیان کریں گے۔ 2۔ اشتمال صماء کو سخت بکل کہتے ہیں جس کی وضاحت پہلی حدیث میں ہو چکی ہے اور (اِحتبِاَء) یہ ہے کہ دونوں سرین زمین پر رکھ کر اپنی پنڈلیاں کھڑی کر کے اس طرح بیٹھنا کہ عضو مستور ننگا ہو جائے۔ اس حدیث میں اگرچہ مطلق طور پر گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے تاہم اس کی وضاحت ایک حدیث میں اس طرح ہے کہ اس کی شرم گاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔ (صحیح البخاری، مواقیت الصلاة، حدیث: 584) حدیث کے اس جز کا عنوان سے تعلق ہے کہ اس طرح ننگا ہو کر بیٹھنا شریعت میں ناپسندیدہ اور ناجائز کا م ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
366
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
368
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
368
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
368
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
)ما يستر من العورة) میں من بیانیہ ہے کہ جیسا کہ علامہ عینی اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے من بیانیہ میں مدخول کے تمام افراد پر حکم ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے پوری عورۃ کا چھپانا ضروری ہے بعض حضرات کے نزدیک من (تَبعِيضِيَة)ہے اس میں مدخول کے بعض افراد پر حکم ہوتا ہے اس کی صورت یہ ہوگی کہ عورۃ لغوی طور پر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے حیا کی جائے ۔ اس میں عورۃ کے ان حصوں کا بیان ہے جن کا ستر واجب ہے مذکورہ باب میں من بیانیہ ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ جسم کے اس حصے کی تعیین کر دی جائے جس کا چھپانا ضروری ہے اسے عورۃ کہا جاتا ہے۔ اس کی تعیین و مصداق میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قابل ستر حصہ صرف (سَبِيلَين)یعنی قبل اور دبر ہیں جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد خارج صلاۃ کا مسئلہ بیان کرنا ہے کیونکہ نماز میں ستر کی وضاحت کر چکے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی حدیث میں احتباء کا ذکرہے جو خارج صلاۃ ہی ہو سکتا ہے داخل نماز میں احتباء کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔( فتح الباری:1/618۔)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے دو قسم کی خریدوفروخت سے منع فرمایا: ایک صرف چھونے سے اور دوسری جو صرف پھینکنے سے پختہ ہو جائے، نیز آپ نے اشتمال صماء اور ایک کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ دور جاہلیت میں خرید و فروخت کے دو ایسے طریقے رائج تھے جن میں جوئے اور دھوکے کا شائبہ تھا۔ اس لیے شریعت نے ان سے منع فرمایا۔ ایک ملامسہ اور دوسرا منابذہ، بیع ملامسہ کی صورت یہ تھی کہ کپڑے کی دوکان پر فروخت کنندہ اور خریدار کے درمیان زبانی بات چیت طے ہو گئی، قیمت کا بھی فیصلہ ہو گیا ، اب خریدار نے اپنی آنکھیں بند کر کے اپنا ہاتھ جس تھان پر رکھ دیا وہی تھان مقرر شدہ قیمت میں اس کا ہو گیا ۔ کسی کے لیے خیارمجلس، خیار عیب یا خیار رؤیت نہیں ہوتا تھا۔ شریعت نے اس سے منع کردیا۔ اسی طرح منابذہ کا یہ طریقہ تھا کہ زبانی قیمت طے ہونے کے بعد فروخت کنندہ نے آنکھ بند کر کے جو تھان خریدارکی طرف پھینک دیا وہی مشتری کا ہو گیا، خواہ وہ اعلیٰ قسم کا ہو یا گھٹیا قسم کا۔ اسے بھی شریعت نے حرام قراردیا ہے۔ عنوان سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اس لیے ان سے متعلقہ مباحث کو ہم کتاب البیوع میں بیان کریں گے۔ 2۔ اشتمال صماء کو سخت بکل کہتے ہیں جس کی وضاحت پہلی حدیث میں ہو چکی ہے اور (اِحتبِاَء) یہ ہے کہ دونوں سرین زمین پر رکھ کر اپنی پنڈلیاں کھڑی کر کے اس طرح بیٹھنا کہ عضو مستور ننگا ہو جائے۔ اس حدیث میں اگرچہ مطلق طور پر گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے تاہم اس کی وضاحت ایک حدیث میں اس طرح ہے کہ اس کی شرم گاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔ (صحیح البخاری، مواقیت الصلاة، حدیث: 584) حدیث کے اس جز کا عنوان سے تعلق ہے کہ اس طرح ننگا ہو کر بیٹھنا شریعت میں ناپسندیدہ اور ناجائز کا م ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، جو ابوالزناد سے نقل کرتے ہیں، وہ اعرج سے، وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے دو طرح کی بیع و فروخت سے منع فرمایا۔ ایک تو چھونے کی بیع سے، دوسرے پھینکنے کی بیع سے اور اشتمال صماء سے ( جس کا بیان اوپر گزرا ) اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔
حدیث حاشیہ:
عرب میں خرید وفروخت کا طریقہ یہ بھی تھا کہ خریدنے والا اپنی آنکھ بند کرکے کسی چیز پر ہاتھ رکھ د یتا، دوسرا طریقہ یہ کہ خود بیچنے والا آنکھ بند کرکے کوئی چیز خریدنے والے کی طرف پھینک دیتا، ان دونوں صورتوں میں مقررہ قیمت پر خرید وفروخت ہوا کرتی تھی، پہلے کو لماس اور دوسرے کو نباذ کہا جاتا تھا۔ یہ دونوں صورتیں اسلام میں ناجائز قرار دی گئیں اور یہ اصول ٹھہرایا گیا کہ خریدوفروخت میں بیچنے یا خریدنے والا ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا نہ کھاجائے۔ ( یہاں تک فرمایا کہ دھوکہ بازی سے خریدوفروخت کرنے والا ہماری امت سے نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) forbade two kinds of sales i.e. Al-Limais and An-Nibadh (the former is a kind of sale in which the deal is completed if the buyer touches a thing, without seeing or checking it properly and the latter is a kind of a sale in which the deal is completed when the seller throws a thing towards the buyer giving him no opportunity to see, touch or check it) and (the Prophet (ﷺ) forbade) also Ishtimal-As-Samma' and Al-Ihtiba' in a single garment.