تشریح:
1۔ منقش کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ امام بخاریؒ نے اس کے متعلق عنوان میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، لیکن جو روایت پیش کی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ہو جائے گی، کیونکہ نماز کے لیے تو کپڑے کا ساتر اورطاہر ہونا ضروری ہے جو اس صورت میں بھی حاصل ہے، لیکن اگر نمازی یہ خیال کرے کہ ایسا کپڑا اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ چنانچہ حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی ایک نظر کپڑے کے نقش و نگار پر پڑی تو آپ نے نماز کو تو جاری رکھا نہ اسے ختم کیا اور نہ پڑھنے کے بعد اس کا اعادہ فرمایا۔ امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہو گیا کہ اس قسم کے کپڑے میں نماز ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس کے استعمال میں فتنے کا سامان مہیا ہوتا ہو تو سادہ کپڑا استعمال کرنا اولیٰ ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو اشیاء بھی دوران نماز میں نمازی کے خشوع میں خلل انداز ہوں ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ منقش جائے نماز کا حکم بھی یہی ہے۔ 2۔ ابن شہاب عن عروہ والی پہلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہوئے۔ دوسری ہشام عن عروہ والی روایت میں ہے کہ آپ کو فتنے میں پڑنے کا اندیشہ لاحق ہوا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے دونوں باتوں کو متضاد خیال کر کے پہلی روایت کی بایں طور تاویل کی ہے کہ قریب تھا کہ آپ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہو جاتے، یعنی پہلی روایت کا مطلب دوسری روایت کے مطابق کردیا ہے کہ آپ کو غفلت بھی پیش نہیں آئی تھی۔ (فتح الباري:626/1) لیکن اس حدیث سے بعض شارحین نے ایک مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ نماز میں کوئی غیر متعلق خیال آنے پر نماز خراب نہیں ہوتی۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو کسی درجے میں بھی غفلت پیش نہیں آئی تھی، بلکہ صرف اس کا خوف وخطرہ ہی تھا تو استدلال مذکور کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟اس لیے بہتر توجیہ یہ ہے کہ غفلت کا تحقق ووجود تو تسلیم کر لیا جائے، لیکن یہ غفلت فتنے میں پڑجانے کے درجے سے بہت کم تھی جس میں غیر متعلق خیال و فکر میں استغراق کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ صورت رسول اللہ ﷺ کو پیش نہیں آئی بلکہ اس کا صرف اندیشہ پیدا ہوا ممکن ہے نقش و نگار کی طرف توجہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب صنعت گری کا فکرو خیال پیدا ہوا ہو جسے آپ نے اپنے مرتبہ عالیہ کی نسبت سے ایک درجے کا نقص خیال فرمایا ہو۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ اللہ کی طرف توجہ سے ہٹ گئے ہوں، کیونکہ بعض لوگ دو کاموں میں بیک وقت مشغول ہوتے ہیں اور کسی ایک امرکی ادائیگی میں نقص واقع نہیں ہوتا۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معمولی درجے کا فکری اشتعال مانع صلاۃ نہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔ نیز اگر نماز میں نماز سے باہر کی کسی چیز کا خیال آجائے تو نماز درست ہے، بعض سلف سے جو منقول ہے کہ اس سے نماز کی صحت پر اثر پڑے گا وہ معتبرنہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں خشوع اور دل کا پوری طرح متوجہ ہونا مطلوب ہے لہٰذا نمازی کو چاہیے کہ حتی الامکان اپنے قصد وارادے سے دوران نماز میں دوسرے خیالات نہ آنے دے اور اگر خود بخود آجائیں تو ان کی طرف توجہ نہ دے۔ (عمدة القاري:314/3) 4۔ رسول اللہ ﷺ نے اس منقش چادر کو فتنے کا سامان قراردیا تو آپ نے اسے ابو جہم ؓ کو کیوں واپس کیا؟ جب وہ آپ کے لیے باعث فتنہ تھی تو حضرت ابو جہم ؓ کے لیے تو وہ بدرجہ اولیٰ باعث فتنہ ہو سکتی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے اس کی دلجوئی کے لیے اس چادر کو واپس کیا تاکہ وہ اسے کسی اور مصرف میں لا سکے اس لیے واپس نہیں کیا کہ وہ اس میں نماز ادا کرے۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابو جہم ؓ چونکہ نابینا تھے اس لیے منقش کپڑا ان کے حق میں سامان فتنہ نہ تھا۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ جس چیز کا اثر رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک پر ہو اس کا اثر عوام کے دل پر بھی ہو، کیونکہ آپ کا قلب مبارک صاف آئینے کی طرح تھا۔ اس لیے وہ کمال صفائی اور غایت لطافت کی بنا پر ظاہری نقوش کا اثر جلدی قبول کر لیتا تھا، اس کے برعکس اگر آئینے پر صفائی نہ ہو تو وہ معمولی نقوش کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اس لیے آپ نے وہ منقش چادر ابو جہم کو واپس کردی کہ اگر وہ استعمال کریں گے تو کچھ مضائقہ نہیں ہو گا۔ 5۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر ابو جہم کو اس لیے واپس کی تھی کہ اسی نے آپ کو بطور ہدیہ بھیجی تھی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک منقش چادر بطور تحفہ بھیجی ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عطیہ بھیجنے والے کو اگر اس کا عطیہ واپس کردیا جائے اور وہ خود اسے واپس لینے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے واپس لینے میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہم ؓ کی دلجوئی کے لیے اس منقش چادر کی جگہ سادہ چادر لینے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنے ہدیے کی واپسی پر دل برداشتہ نہ ہو۔ (شرح ابن بطال:37/2)