قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ مَنَاقِبِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مَوْلَى النَّبِيِّ ﷺ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ البَرَاءُ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: «أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا»

3730. حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَطَعَنَ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِمَارَتِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَطْعُنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعُنُونَ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

´اورحضرت براء ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ` نبی کریم ﷺ نے زید بن حارثہ ؓ سے فرمایا تھا، تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو۔تشریح :حضرت زید بن حارثہ کی کنیت ابواسامہ ہے، ان کی والدہ سعدیٰ بنت ثعلبہ ہیں، جو بنی معن میں سے تھیں آٹھ سال کی عمر میں حضرت زید کو ڈاکوؤں نے اغواء کرکے مکہ میں چار سو درہم میں بیچ ڈالا۔ خریدنے والے حکیم بن حزام بن خویلد تھے جنہون نے ان کو خرید کر اپنی پھوپھی خدیجۃ الکبریٰؓ کو دے دیا۔ آنحضرت ﷺ سے شادی کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو رسول اللہ ﷺ کے لیے ہبہ کردیا ۔ ابتداء میں ان کو رسول اللہﷺ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا اور ان کا نکاح اپنی آزاد کردہ لونڈی ام ایمن سے کردیا تھا۔ ، جن سے اسامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ اس کے بعد زینب بنت جحش سے ان کا نکاح ہوا۔ آیت فلما قضیٰ زید منھا وطرا ( الاحزاب : 37 ) میں ان ہی کانام مذکور ہے۔ غزوہ موتہ میں بعمر 55 سال 8ہجری میں امیر لشکر کی حیثیت سے شہید کردیے گئے۔

3730.

حضرت عبد اللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر تیار کیا اور اس پر حضرت اسامہ بن زید  ؓ   کو امیر مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا۔ اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگرتم اسامہ بن زید  ؓ  کی سرداری پر اعتراض کرتے ہو تو تم نے قبل ازیں اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اللہ کی قسم !وہ سرداری کے لیے نہایت ہی موزوں شخص تھے اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب تھے اور ان کے بعد یہ اسامہ  ؓ  مجھے لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں۔‘‘