تشریح:
1۔ صحت نماز کے لیے نمازی کے سجدے اور قیام کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر نماز کی جگہ پاک ہو تو قریب میں عورت کے لیٹے رہنے سے کوئی نقصان نہیں ہو تا۔ اگر نمازی کا کپڑا بھی عورت کے بدن سے لگتا رہے تو بھی کوئی اندیشہ نہیں، کیونکہ نجاست حکمی ہے حسی نہیں۔ حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت میمونہ ؓ بحالت حیض آپ کے قریب لیٹی رہتیں اور آپ نماز پڑھتے رہتے۔ اس سے امام بخاری ؒ کامدعا ثابت ہو گیا۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حائضہ عورت کی نجاست حکمی ہے ذاتی نہیں، کیونکہ حیض آنے سے اس کی ذات ناپاک نہیں ہوجاتی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دوران نماز میں اگر نمازی کا کپڑا یا اس کے بدن کا کوئی حصہ حائضہ سے چھو جائے تو اس سے نماز میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔ ہاں اگر حقیقی نجاست نمازی کے بدن یا کُرتے کو لگ جائےتو صحت نماز کے لیے اس کا ازلہ ضروری ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوران نماز میں عورت کے سامنے ہونے سے نماز خراب نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:633/1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ نمازی کے کپڑے کا کچھ حصہ اگر بیوی کے بدن سے لگ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ اسے لمس نساء ہی خیال کیا جائے کہ اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہو۔ اس طرح نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔