صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
15. باب: ایسے کپڑے میں اگر کسی نے نماز پڑھی جس پر صلیب یا مورتیاں بنی ہوں تو نماز فاسد ہو گی یا نہیں اور ان کی ممانعت کا بیان۔
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
15. Chapter: If someone offers Salat (prayer) in a garment bearing marks of a cross or picture, will he Salat be annulled? And what is forbidden thereof
باب: ایسے کپڑے میں اگر کسی نے نماز پڑھی جس پر صلیب یا مورتیاں بنی ہوں تو نماز فاسد ہو گی یا نہیں اور ان کی ممانعت کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: If someone offers Salat (prayer) in a garment bearing marks of a cross or picture, will he Salat be annulled? And what is forbidden thereof)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
379.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک پردہ تھا جسے انھوں نے گھر کی ایک طرف لٹکا رکھا تھا۔ نبی ﷺ نے (اسے دیکھ کر) فرمایا: ’’ہمارے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو کیونکہ اس کی تصویریں مسلسل میری نماز میں سامنے آتی رہتی ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ عنوان میں اگر تصاویر کا عطف (مصلّب) پر ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے۔ اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جائے جس پر صلیب کا نقش ہو یا دوسری تصویریں ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟ اگر اس کا عطف "ثوب" پر ہو تو اس کا ترجمہ یوں ہو گا اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جائے جس پر صلیب کا نشان ہو یا ایسی جگہ پر نماز ادا کی جائے جہاں تصاویر ہوں تو ایسی نماز کا کیا حکم ہے؟اس روایت سے تصاویر کے متعلق معلوم ہوا کہ نماز تو فاسد نہیں ہو گی، البتہ کراہت برقرار رہے گی۔ اس حدیث کی تفصیل دیگر روایات میں اس طرح ہے کہ حضرت عائشہ ٍ کے پاس ایک پردہ تھا جسے انھوں نے گھر کے ایک حصے پر لٹکا رکھا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف نماز پڑھ کرناگواری کا اظہار فرمایا ۔ حضرت عائشہ ؓ نے اسے اتار کر دوٹکڑے کر دیے جو دو تکیوں کے غلاف بنے۔ رسول اللہ ﷺ ان پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے تھے۔ (سنن النسائي، الزینة، حديث:5357) اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کا منشا ان تصاویر و تماثیل کی توہین کرنا اور انھیں عزت واحترام کے مقام سے گرانا ہے، لہٰذا ہر وہ صورت جس سے اس کی تعظیم ہوتی ہو ممنوع ہوگی۔ اور جس سے اس کی اہانت ہو وہ مطلوب مجسمے یا تصاویر بنانا اور فوٹو لینا بہر صورت ناجائز و حرام ہیں، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کی مشابہت کے علاوہ عبادت غیر اللہ اور بہت سے مفاسد ہیں، یعنی ان سے بے شمار برائیوں اور بداخلاقیوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس لیے ناجائز و حرام ہیں۔ چونکہ یہاں مقصود نماز کا مسئلہ ہے تصویر کا مسئلہ بتانا مقصود نہیں، لہٰذا اس کی تفصیل کتاب اللباس میں آئے گی۔ 2۔ اس روایت میں اگرچہ صلیب کا ذکر نہیں، تاہم رسول اللہ ﷺ کو اس کا نقش اس درجہ قابل نفرت تھا کہ جہاں اس کا نقش پاتے اسے مٹا دیتے یا اکھاڑ دیتے، چنانچہ حدیث میں ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ اپنے اپنے گھر میں اگر کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر صلیب کا نشان ہوتا تو اسے توڑڈالتے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5952) امام بخاریؒ نے مذکوہ حدیث پیش کر کے اس روایت کی طرف اشارہ کردیا جس میں صلیب کے توڑنے کا ذکر ہے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ صلیب بھی ایک شکل میں تصویر ہی ہے اور تصویر ہی کے حکم میں اسے ممنوع قراردیا جائے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے یہ جواب دیا ہے کہ چونکہ دونوں کی عبادت کی جاتی ہے، لہٰذا ایک ذکر کر کے دوسری کو اس پر قیاس کر لیا گیا۔ (فتح الباري:628/1) ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے گھر کی کسی دیوار میں عیب ہوا اور آپ نے اسے چھپانے کے لیے یہ پردہ استعمال کیا ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے زیب و زینت کے طور پر درودیوار کی پردہ پوشی سے منع کیا ہے۔ فرمان نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ ہم اس کے رزق کو پتھروں اور اینٹوں کی پوشش پر صرف کریں۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث:4153)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
372
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
374
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
374
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
374
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک پردہ تھا جسے انھوں نے گھر کی ایک طرف لٹکا رکھا تھا۔ نبی ﷺ نے (اسے دیکھ کر) فرمایا: ’’ہمارے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو کیونکہ اس کی تصویریں مسلسل میری نماز میں سامنے آتی رہتی ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ عنوان میں اگر تصاویر کا عطف (مصلّب) پر ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے۔ اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جائے جس پر صلیب کا نقش ہو یا دوسری تصویریں ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟ اگر اس کا عطف "ثوب" پر ہو تو اس کا ترجمہ یوں ہو گا اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جائے جس پر صلیب کا نشان ہو یا ایسی جگہ پر نماز ادا کی جائے جہاں تصاویر ہوں تو ایسی نماز کا کیا حکم ہے؟اس روایت سے تصاویر کے متعلق معلوم ہوا کہ نماز تو فاسد نہیں ہو گی، البتہ کراہت برقرار رہے گی۔ اس حدیث کی تفصیل دیگر روایات میں اس طرح ہے کہ حضرت عائشہ ٍ کے پاس ایک پردہ تھا جسے انھوں نے گھر کے ایک حصے پر لٹکا رکھا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف نماز پڑھ کرناگواری کا اظہار فرمایا ۔ حضرت عائشہ ؓ نے اسے اتار کر دوٹکڑے کر دیے جو دو تکیوں کے غلاف بنے۔ رسول اللہ ﷺ ان پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے تھے۔ (سنن النسائي، الزینة، حديث:5357) اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کا منشا ان تصاویر و تماثیل کی توہین کرنا اور انھیں عزت واحترام کے مقام سے گرانا ہے، لہٰذا ہر وہ صورت جس سے اس کی تعظیم ہوتی ہو ممنوع ہوگی۔ اور جس سے اس کی اہانت ہو وہ مطلوب مجسمے یا تصاویر بنانا اور فوٹو لینا بہر صورت ناجائز و حرام ہیں، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کی مشابہت کے علاوہ عبادت غیر اللہ اور بہت سے مفاسد ہیں، یعنی ان سے بے شمار برائیوں اور بداخلاقیوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس لیے ناجائز و حرام ہیں۔ چونکہ یہاں مقصود نماز کا مسئلہ ہے تصویر کا مسئلہ بتانا مقصود نہیں، لہٰذا اس کی تفصیل کتاب اللباس میں آئے گی۔ 2۔ اس روایت میں اگرچہ صلیب کا ذکر نہیں، تاہم رسول اللہ ﷺ کو اس کا نقش اس درجہ قابل نفرت تھا کہ جہاں اس کا نقش پاتے اسے مٹا دیتے یا اکھاڑ دیتے، چنانچہ حدیث میں ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ اپنے اپنے گھر میں اگر کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر صلیب کا نشان ہوتا تو اسے توڑڈالتے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5952) امام بخاریؒ نے مذکوہ حدیث پیش کر کے اس روایت کی طرف اشارہ کردیا جس میں صلیب کے توڑنے کا ذکر ہے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ صلیب بھی ایک شکل میں تصویر ہی ہے اور تصویر ہی کے حکم میں اسے ممنوع قراردیا جائے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے یہ جواب دیا ہے کہ چونکہ دونوں کی عبادت کی جاتی ہے، لہٰذا ایک ذکر کر کے دوسری کو اس پر قیاس کر لیا گیا۔ (فتح الباري:628/1) ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے گھر کی کسی دیوار میں عیب ہوا اور آپ نے اسے چھپانے کے لیے یہ پردہ استعمال کیا ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے زیب و زینت کے طور پر درودیوار کی پردہ پوشی سے منع کیا ہے۔ فرمان نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ ہم اس کے رزق کو پتھروں اور اینٹوں کی پوشش پر صرف کریں۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث:4153)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس ؓ سے نقل کیا کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انھوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو۔ کیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
گواس حدیث میں صلیب کا ذکر نہیں ہے۔ مگراس کا حکم بھی وہی ہے جو تصویر کا ہے اور جب لٹکانے سے آپ نے منع فرمایا تویقینا بطریق اولیٰ منع ہوگا۔ اور شاید حضرت امام ؓ نے کتاب اللباس والی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ اپنے گھر میں کوئی ایسی چیز نہ چھوڑتے جس پر صلیب بنی ہوتی، اس کو توڑ دیا کرتے تھے۔ اور باب کی حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ ایسے کپڑے کا پہننا یا لٹکانا منع ہے، لیکن اگر کسی نے اتفاقاً پہن لیا تونماز فاسد نہ ہوگی، کیوں کہ آپ نے اس نماز کو دوبارہ نہیں لوٹایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): 'Aisha (RA) had a Qiram (a thin marked woolen curtain) with which he had screened one side of her home. The Prophet (ﷺ) said, "Take away this Qiram of yours, as its pictures are still displayed in front of me during my prayer (i.e. they divert my attention from the prayer)."