تشریح:
1۔ابن بطال کی رائے کے مطابق اگر مصلی بقدر قامت انسان ہو تو اسے حصیر کہتے ہیں اس سے کم ہو تو اسے خمرہ کہا جاتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ ان تمام افعال پر عنوانات قائم کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں اس مقام پرالصلاة علی الحصیراس کے بعد الصلاة علی الخمرة اور الصلاة علی الفراش اسی نوعیت کے ہیں۔اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ چھوٹی یا بڑی چٹائی پر نماز ادا کرنا جائز ہے۔ البتہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق بعض روایات ملتی ہیں کہ ان کے لیے مٹی لائی جاتی۔ اسے چٹائی پر رکھا جاتا، پھر آپ اس پر سجدہ کرتے، حضرت ابراہیم نخعی ؒ کےمتعلق بھی مروی ہے کہ وہ بھی زمین پر سجدہ کرنے کو پسند کرتے تھے۔ اگر یہ روایات صحیح ہیں تو یہ ان حضرات کے انتہائی عجز و انکسار اور تواضع پر محمول کی جائی گی۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ چٹائی پر نماز ادا کرنے کو درست خیال نہیں کرتے تھے، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ سے چٹائی پر نماز پڑھنا ثابت ہے تو اس کے جواز میں کیا شبہ ہو سکتا ہے جب کہ آپ سے زیادہ تواضع اور خشوع بھی کسی میں نہیں ہو سکتا، بلکہ سعید بن مسیب ؒ نے تو چٹائی پر نماز ادا کرنے کو سنت قراردیا ہے۔ (شرح ابن بطال:43/2) 2۔ شریح بن ہانی ؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ آیا رسول اللہ ﷺ چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے چٹائی بنایا ہے؟اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ چٹائی پر نماز نہیں پڑھتے تھے امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے اگر مذکورہ روایت صحیح ہے تو شاذ ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں کیونکہ اس سے زیادہ قوی روایات اس کے معارض ہیں جیسا کہ حضرت انس ؓ کی روایت جسے امام بخاری ؒ نے بیان فرمایا ہے بلکہ خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جیسا کہ آئے گا کہ نبی ﷺ کی ایک چٹائی تھی جسے آپ بچھا کر بیٹھتے تھے اور بوقت ضرورت اس پر نماز ادا کرتے۔ ( فتح الباري:636/1) 3اس کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چٹائی پر نماز ادا کرتے دیکھاہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:159 (519))