قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَابُ مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ ؓ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3813. حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَزْهَرُ السَّمَّانُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ فَدَخَلَ رَجُلٌ عَلَى وَجْهِهِ أَثَرُ الْخُشُوعِ فَقَالُوا هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ تَجَوَّزَ فِيهِمَا ثُمَّ خَرَجَ وَتَبِعْتُهُ فَقُلْتُ إِنَّكَ حِينَ دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ قَالُوا هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ وَاللَّهِ مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ مَا لَا يَعْلَمُ وَسَأُحَدِّثُكَ لِمَ ذَاكَ رَأَيْتُ رُؤْيَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ وَرَأَيْتُ كَأَنِّي فِي رَوْضَةٍ ذَكَرَ مِنْ سَعَتِهَا وَخُضْرَتِهَا وَسْطَهَا عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ أَسْفَلُهُ فِي الْأَرْضِ وَأَعْلَاهُ فِي السَّمَاءِ فِي أَعْلَاهُ عُرْوَةٌ فَقِيلَ لِي ارْقَ قُلْتُ لَا أَسْتَطِيعُ فَأَتَانِي مِنْصَفٌ فَرَفَعَ ثِيَابِي مِنْ خَلْفِي فَرَقِيتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلَاهَا فَأَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ فَقِيلَ لَهُ اسْتَمْسِكْ فَاسْتَيْقَظْتُ وَإِنَّهَا لَفِي يَدِي فَقَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تِلْكَ الرَّوْضَةُ الْإِسْلَامُ وَذَلِكَ الْعَمُودُ عَمُودُ الْإِسْلَامِ وَتِلْكَ الْعُرْوَةُ عُرْوَةُ الْوُثْقَى فَأَنْتَ عَلَى الْإِسْلَامِ حَتَّى تَمُوتَ وَذَاكَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ و قَالَ لِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا مُعَاذٌ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ عُبَادٍ عَنْ ابْنِ سَلَامٍ قَالَ وَصِيفٌ مَكَانَ مِنْصَفٌ

مترجم:

3813.

حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پر خشوع کے اثرات تھے۔ لوگوں نے کہا: یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں۔ ان میں اختصار کیا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو میں ان کے پیچھے ہو لیا اور عرض کی: جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! کسی کے لیے ایسی بات منہ سے نکالنا جائز نہیں جسے وہ نہ جانتا ہو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ دراصل میں نے نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا اور آپ ﷺ سے اسے بیان کیا۔ میں نے دیکھا گویا میں ایک باغ میں ہوں۔ انہوں نے اس کی کشادگی اور شادابی بیان کی۔ پھر کہا: اس باغ کے درمیان ایک لوہے کا ستون ہے جس کا نچلا حصہ زمین میں اور اوپر والا آسمان میں ہے، اوپر کی طرف ایک کنڈا لگا ہوا ہے۔ خواب میں مجھے کہا گیا کہ تم اس پر چڑھ جاؤ۔ میں نے کہا مجھ سے نہیں چڑھا جاتا۔ اس دوران میں میرے پاس ایک خادم آیا۔ اس نے پیچھے کی طرف سے میرے کپڑے اٹھا دیے۔ آخر میں اوپر چڑھ گیا۔ جب میں اس کی چوٹی پر پہنچ گیا تو میں نے وہ کنڈا پکڑ لیا۔ مجھ سے کہا گیا: اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ اسی دوران میں کہ کنڈا میرے ہاتھ میں تھا، میری آنکھ کھل گئی، چنانچہ میں نے یہ خواب نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے یوں تعبیر فرمائی: ’’وہ باغ تو دین اسلام ہے۔ اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے۔ اور کنڈا ’’عروہ وثقی‘‘ ہے۔ اور تم اپنی موت تک اسلام پر قائم ہو گے۔‘‘ یہ بزرگ عبداللہ بن سلام ؓ تھے۔ ایک روایت میں لفظ (منصف) (خادم) کے بجائے (وصيف) کا لفظ ہے۔